ہمارے اس مضمون سے ثابت ہے) نے امام شافعی کی تائید فرمائی ہے۔ 4 کثیر اور قلیل تدلیس میں فرق کرنے والا منہج صحیح نہیں بلکہ مرجوح ہے۔ 5 اگر مدلس کی عن والی روایت مقبول ہے تو پھر منقطع اور مرسل روایات کیوں غیر مقبول ہیں ؟ 6 مدلسین مثلاً امام سفیان ثوری رحمہ اللہ وغیرہ کی معنعن اور سماع کی صراحت کے بغیر والی روایات غیرمقبول ہیں ، اگرچہ بعض متاخر علما نے اُنھیں طبقہ ثانیہ یا طبقۂ اولیٰ میں ذکر کر رکھا ہو۔ 7 حافظ ابن حبان کے نزدیک امام سفیان بن عیینہ صرف ثقہ سے ہی تدلیس کرتے تھے۔ ہمیں اس آخری شق سے دو دلیلوں کے ساتھ اختلاف ہے: ۱) بعض اوقات سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ غیر ثقہ سے بھی تدلیس کر لیتے تھے۔ مثلاً دیکھئے تاریخ یحییٰ بن معین (روایۃ الدوري : ۹۷۹) کتاب الجرح والتعدیل ( ۷/ ۱۹۱) اور میری کتاب توضیح الاحکام ( ج۲/ص ۱۴۹) لہٰذا یہ قاعدہ کلیہ نہیں بلکہ قاعدہ اَغلبیہ ہے۔ ۲) امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ بعض اوقات ثقہ مدلس (مثلاً ابن جریج) سے بھی تدلیس کرتے تھے۔دیکھئے الکفایہ ( ص ۳۵۹، ۳۶۰ وسندہ صحیح) اور توضیح الاحکام ( ج۲/ص ۱۴۸) میں نے یہ کہیں بھی نہیں پڑھا کہ سفیان بن عیینہ ثقہ مدلس راویوں سے بطورِ تدلیس صرف وہی روایات بیان کرتے تھے جن میں اُنھوں نے سفیان کے سامنے سماع کی تصریح کر رکھی ہوتی تھی، لہٰذا کیا بعید ہے کہ ثقہ مدلس نے ایک روایت تدلیس کرتے ہوئے بیان کی ہو اور سفیان بن عیینہ نے اس ثقہ مدلس کو سند سے گرا کر روایت بیان کر دی ہو، لہٰذا اس وجہ سے بھی ان کی معنعن روایت ناقابلِ اعتماد ہے۔ واللہ اعلم 16 حسین بن عبداللہ طیبی (متوفی۷۴۳ھ) نے اپنے اُصولِ حدیث والے رسالے میں امام شافعی رحمہ اللہ کے اصول کو درج فرمایا ہے اور کوئی تردید نہیں کی، لہٰذا اس مسئلے میں وہ بھی شافعی سے متفق تھے۔دیکھئے الخلاصۃ فی اصول الحدیث (ص ۷۲ تحقیق صبحی سامرائی) 17 ابو بکر صیرفی (متوفی۳۳۰ھ)نے (کتاب الرسالہ کی شرح ) کتاب الدلائل والاعلام میں فرمایا:’’ کل من ظهر تدليسه عن غير الثقات لم يقبل خبره حتی يقول: حدثني أو سمعت‘‘ہر وہ شخص جس کی تدلیس غیر ثقہ راویوں سے ظاہر ہو |