Maktaba Wahhabi

103 - 138
في قبول روايته لهذہ العلة ۔ و إن لم يبين السماع فيها ۔ کالحکم في رواية ابن عباس إذا روٰی عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم ما لم يسمع منه ‘‘ (صحیح ابن حبان ، الاحسان:۱/ ۱۶۱، دوسرا نسخہ :۱/ ۹۰) ’’اور مگر وہ مدلسین جو ثقہ اور عادل ہیں تو ہم ان کی بیان کردہ روایات میں سے صرف ان روایات سے ہی استدلال کرتے ہیں جن میں اُنھوں نے سماع کی تصریح کی ہے، مثلاً ثوری، اعمش ، ابو اسحق اور ان جیسے دوسرے ائمہ متقین ( ائمہ متقنین ) اور دین میں پرہیزگاری والے امام۔ کیونکہ اگر ہم مدلس کی وہ روایت قبول کریں جس میں اُس نے سماع کی تصریح نہیں کی، اگرچہ وہ ثقہ تھا، تو ہم پر یہ لازم آتا ہے کہ ہم تمام منقطع اور مرسل روایات قبول کریں ۔ کیونکہ یہ معلوم نہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اس مدلس نے اس روایت میں ضعیف سے تدلیس کی ہو، اگر اس کے بارے میں معلوم ہوتا تو روایت ضعیف ہو جاتی، سوائے اس کے کہ اللہ جانتا ہے۔ اگر مدلس کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ اس نے صرف ثقہ سے ہی تدلیس کی ہے ، پھر اگر اس طرح ہے تو اس کی روایت مقبول ہے اور اگرچہ وہ سماع کی تصریح نہ کرے، اور یہ بات (ساری) دنیا میں سوائے سفیان بن عیینہ اکیلے کے کسی اور کے لئے ثابت نہیں ہے۔ کیونکہ وہ تدلیس کرتے تھے اور صرف ثقہ متقن سے ہی تدلیس کرتے تھے۔ سفیان بن عیینہ کی ایسی کوئی روایت نہیں پائی جاتی جس میں اُنھوں نے تدلیس کی ہو مگر اسی روایت میں اُنھوں نے اپنے جیسے ثقہ سے تصریح سماع کر دی تھی۔ اس وجہ سے ان کی روایت کے مقبول ہونے کا حکم__ اگرچہ وہ سماع کی تصریح نہ کریں __ اسی طرح ہے جیسے ابن عباس رضی اللہ عنہ اگر نبی1 سے ایسی روایت بیان کریں جو اُنھوں نے آپ سے سنی نہیں تھی، کا حکم ہے۔ ‘‘ اس حوالے میں بھی حافظ ابن حبان نے مدلس راوی کی اس روایت کو غیر مقبول قرار دیا ہے جس میں سماع کی تصریح نہ ہو اور امام شافعی رحمہ اللہ کی معناً تائید فرمائی ہے۔ حافظ ابن حبان رحمہ اللہ کے اس بیان سے درج ذیل اہم نکات واضح ہیں : 1 جس راوی کا مدلس ہونا ثابت ہو،اس کی عدمِ تصریحِ سماع والی روایت غیر مقبول ہوتی ہے۔ 2 امام شافعی کا بیان کردہ اُصول صحیح ہے۔ 3 امام شافعی اپنے اُصول میں منفرد نہیں بلکہ ابن حبان اور اُن کے شیوخ ( نیز [عبدالرحمن بن مہدی ]احمد بن حنبل ، اسحق بن راہویہ، مزنی، بیہقی اور خطیب بغدادی وغیرہم جیسا کہ
Flag Counter