Maktaba Wahhabi

102 - 138
( کتاب المجروحین:۱/ ۹۲، دوسرا نسخہ :۱/ ۸۶) ’’تیسری قسم: وہ ثقہ مدلسین جو روایات میں تدلیس کرتے تھے مثلاً قتادہ،یحییٰ بن ابی کثیر، اعمش، ابو اسحق ، ابن جریج ، ابن اسحق ، ثوری ، ہشیم اور جو اُن کے مشابہ تھے جن کی تعداد زیادہ ہے، وہ پسندیدہ اماموں اور دین میں پرہیز گاروں میں سے تھے۔ وہ سب سے (روایات) لکھتے اور جن سے سنتے تو اُن سے روایتیں بھی بیان کرتے تھے۔ بعض اوقات وہ شیخ یعنی اُستاذ سے سننے کے بعد ضعیف لوگوں سے سنی ہوئی روایات اس (شیخ) سے بطورِ تدلیس بیان کرتے تھے، ان کی ( معنعن ) روایات سے استدلال جائز نہیں ہے۔ پس جب تک مدلس اگرچہ ثقہ ہو حدثنی یا سمعتُ نہ کہے (یعنی سماع کی تصریح نہ کرے) تو اس کی روایت سے اِستدلال جائز نہیں ہے اور یہ ابو عبداللہ محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ کی اصل (یعنی اُصول) ہے اور ہمارے اساتذہ نے اس میں اُن کی اتباع ( یعنی موافقت ) کی ہے۔ اس عظیم الشان بیان میں حافظ ابن حبان نے تدلیس کے مسئلے میں امام شافعی کی مکمل موافقت فرمائی بلکہ منہج المتقدمین کے نام سے کثیر التدلیس اورقلیل التدلیسکی عجیب و غریب، شاذاور ناقابلِ عمل اصطلاحات کے رواج کے ذریعے سے مسئلہ تدلیس کو بے کار کرنے والوں کے شبہات کا خاتمہ کردیا ہے۔ حافظ ابن حبان نے دوسری جگہ فرمایا: ’’وأما المدلّسون الذين هم ثقات وعدول فإنا لا نحتج بأخبارهم إلا ما بينوا السماع فيما رووا مثل الثوري والأعمش وأبي إسحٰق وأضرابهم من الأئمة المتقين(المُتقنين) وأهل الورع في الدين لأنا متی قبلنا خبر مدلّس لم يبين السماع فيه۔ وإن کان ثقة لزمنا قبول المقاطيع والمراسيل کلها لأنه لا يدري لعل هذا المدلس دلّس هذا الخبر عن ضعيف يهي؟؟؟ الخبر بذکره إذا عرف، اللهم إلا أن يکون المدلّس يعلم أنه مادلّس قط إلا عن ثقة فإذا کان کذلک قبلت روايته وإن لم يبين السماع وهذا ليس في الدنيا إلا سفيان بن عيينة وحده فإنه کان يدلّس ولا يدلّس إلا عن ثقة متقن ولا يکاد يوجد لسفيان بن عيينة خبر دلّس فيه إلا وجد ذلک الخبر بعينه قد بيّن سماعه عن ثقة مثل نفسه والحکم
Flag Counter