ثبوت سے ( غیر مدلس کا) ظاہر حال یہ ہوتا ہے کہ اُس نے ( اپنے استاد سے ) سنا ہے، اور اسی طرح اگر کسی آدمی کا (صرف ) ایک حدیث میں جھوٹ معلوم ہو جائے تو اس کا ظاہر حال یہی بن جاتا ہے ( کہ وہ جھوٹا ہے) اور اس کی تمام احادیث پر عمل ساقط ہو جاتا ہے، اس جواز کے ساتھ کہ وہ اپنی بعض روایات میں سچا ہو سکتا ہے۔ ‘‘ دو اہم دلیلیں بیان کر کے سخاوی نے امام شافعی کی تائید کر دی اور ان لوگوں میں شامل ہو گئے جو مدلس کی عن والی روایت نہیں مانتے ، چاہے اُس نے ساری زندگی میں صرف ایک دفعہ تدلیس کی ہو۔ 13 زکریا بن محمد الانصاری ( متوفی ۹۲۶ھ) نے بھی عراقی کے مذکورہ قول ( دیکھئے فقرہ : ۱۱) کو نقل کر کے اس کی دلیل بیان کی اور کوئی مخالفت نہیں کی ۔(دیکھئے فتح الباقی بشرح الفیۃ العراقی، تحقیق حافظ ثناء اللہ الزاہدی ص ۱۶۹، ۱۷۰) معلوم ہواکہ اس مسئلے میں وہ بھی امام شافعی رحمہ اللہ سے متفق تھے۔ 14 جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ ( متوفی ۹۱۱ھ) نے بھی امام شافعی کا قول نقل کر کے کوئی مخالفت نہیں کی لہٰذا یہ ان کی طرف سے تائید ہے۔ دیکھئے تدریب الراوی ( ۱/ ۲۳۰) بلکہ سیوطی نے ’’ ولو بمرة وضح‘‘ کہہ کر تدلیس کو صراحتاً جرح قرار دیا ہے۔ دیکھئے: الفیۃ السیوطی فی علم الحدیث،ص ۳۱،بتحقیق احمد محمد شاکر 15- حافظ ابن حبان بستی ( متوفی ۳۵۴ھ) نے فرمایا: ’’الجنس الثالث: الثقات المدلسون الذين کانوا يدلسون في الأخبار مثل قتادۃ ويحيٰی بن أبي کثير والأعمش و أبو إسحٰق وابن جريج وابن إسحٰق والثوري وهشيم ومن أشبههم ممن يکثر عددهم من الأئمة المرضيـين وأهل الورع في الدين کانوا يکتبون عن الکل ويروون عمن سمعوا منه فربما دلّسوا عن الشيخ بعد سماعهم عنه عن أقوام ضعفاء لايجوز الإحتجاج بأخبارهم، فما لم يقل المدلّس وإن کان ثقة: حدثني أو سمعت فلا يجوز الاحتجاج بخبرہ،وهذا أصْلُ أبي عبد اﷲ محمد بن إدريس الشافعي ۔ رحمه اﷲ ۔ ومن تبعه من شيوخنا‘‘ |