ہیں اور عرفِ عام میں بھی اس سے مراد دین اسلام ہی ہوتا ہے ، عام مسلمان کہتے ہیں کہ ہمارے بچے عربی پڑھ رہے ہیں یعنی اسلامی وعربی تعلیم ۔ قرآنِ کریم کی عربی زبان بالخصوص زیادہ آسان ہے! اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ایک صفت یہ ہے: لَا یُکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلاَّ وُسْعَہَا اسی صفت کے مطابق اس باب میں اس کی ایک عظیم نعمت کا ذکر کرنا یہاں بہت ضروری اور مفید ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی حکمت ورحمت کے مطابق اس کائنات کی ہدایت اور بھلائی کی خاطر اپنی آخری کتاب قرآنِ حکیم کو عربی زبان میں نازل فرمایا ہے، اور پھر اسے عام فہم اور سہل اُسلوب میں بیان کیا ہے تاکہ اسے عوام وخواص، شہری ودیہاتی، خواندہ وناخواندہ تمام انسان، نیز عرب وعجم سبھی لوگ پڑھ سکیں اور اس کے ارشادات اور احکام کو بآسانی سمجھتے ہوئے اُن پر عمل کرسکیں ۔ چنانچہ قرآنِ حکیم کی عربی زبان کے الفاظ، ترکیبیں ، محاورے اور جملے آسان اور چھوٹے چھوٹے ہیں اور ان کے مضامین اورمطالب بھی عموماً مختصر، سہل اور اتنے عام فہم ہیں کہ چھوٹی عمر کے بچے بھی اُنہیں بآسانی پڑھ کر ذہن نشین کرلیتے ہیں ۔ یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اس آخری اُمت پر عظیم نعمت اور شفقت ہے۔ اپنی اس عظیم نعمت کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم کے ایک درجن سے زیادہ مقامات پر بیان کیا ہے۔ صرف سورہ القمر میں چار بار اس آیت کریمہ کو دہراتے ہوئے اس سے پند وموعظت لینے کی دعوت دی گئی ہے: وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ (17) ’’یقیناً ہم نے قرآن کو نہایت آسان بنادیا ہے، کیا کوئی اس سے نصیحت حاصل کرنے والا ہے؟‘‘ قرآنِ حکیم کی اس آسان زبان اور آسان اُسلوب کی طرح خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث شریف کی عربی زبان اور اُسلوب بھی اس قرآنی زبان واُسلوب کا عکس ہونے کی بنا پر نہایت آسان اور عام فہم ہے۔ نیز کتاب وسنت کی اس سہل زبان اور سہل اُسلوب کی طرح عام اسلامی لٹریچر پر بھی یہی رنگ غالب ہے کیونکہ صحابہ کرام، تبع تابعین، سلف صالحین اور ائمہ مجتہدین اسی قرآنی نور سے منور ہیں ۔ بلکہ اُمت کے اکثر علما، اُدبا، فقہا اور خطبا کا کلام اسی قرآنی |