کے مترادف ہوگا کہ ’’حج اور عمرے کو اللہ کے لیے پورا کرو۔‘‘ جبکہ حج اور عمرے کا وہ اِتمام جس کا اللہ نے مذکورہ آیت میں حکم دیا ہے، اس کے بغیر حاصل ہی نہیں ہوگا کہ ان کے تمام مناسک کی ادائیگی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ زمان و مکان میں کی جائے نہ کہ کسی ایسے قول یا فتوے کی بنیاد پر جس کی کوئی دلیل نہ ہو یاپھر((افعل ولا حرج))کو سہارا بنا لیا جائے اور اس کلمے کو اس زمان، مکان یا اُن افعال کے علاوہ کسی اور جگہ استعمال کیاجائے جن کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمہ ارشاد فرمایاہے۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غروبِ شمس سے پہلے عرفہ سے لوٹنے والے کوبھی کہا تھا کہ ((افعل ولا حرج)) ’’ کرتے جاؤ اور کوئی حرج نہیں۔‘‘؟ کیا ایام تشریق میں زوال شمس سے پہلے رمّی کرنے والوں کو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی کہا تھا؟ اور کیا عرفات کے بجائے وادی نمرہ یا وادی عرفہ میں وقوف کرنے والے کوبھی اسی طرح ارشاد فرمایا تھا؟ کیا نصف رات سے قبل مزدلفہ سے لوٹ آنے والے کو بھی یہی جواب دیا تھا؟ اور کیا مزدلفہ اور منیٰ میں رات نہ گزارنے والوں کوبھی یہی کہا تھا جب کہ وہ ان دونوں مقامات میں رات گزارنے پرقادر تھے؟ اور کیا بغیر طہارت بیت اللہ کا طواف کرنے والے کو بھی یہی کہا تھا…!! ظاہر ہے کہ ان تمام سوالات کاجواب نفی میں ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ تمام اُمور کو ان کی مناسب جگہ پر اور تمام دلائل کو ان کے مناسب حال اُمور پررکھا جائے اور ضروری ہے کہ مطلق اور مجمل کوبھی بیان کردیا جائے جیساکہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا ہے: ’’تم پر بات کو کھول کربیان کردینا لازمی ہے، کیونکہ اجمال اور اطلاق بعض اوقات خلط مبحث کا سبب بنتے ہیں اور عقول و افہام کو تشویش میں مبتلا کردیتے ہیں ۔‘‘ اور ہمیں یہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ جہادمیں مشقت لازمی ہوتی ہے، یہ کوئی تفریحی سفرنہیں ہوتا جب کہ مناسک کی ادائیگی کے لیے اللہ نے زمان اور مکان ہر دواعتبار سے وسعت رکھی ہے۔ مکان کی وسعت اس اعتبار سے کہ رسول اللہ کا فرمان ہے: |