Maktaba Wahhabi

85 - 95
’’میں نے یہاں وقوف کیا ہے اور مزدلفہ تمام کا تمام جاے وقوف ہے۔‘‘ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا طواف پیدل اور سوار ہوکر دونوں طرح کیاہے۔ اس طرح طوافِ افاضہ اور سعی کا وقت عید والے دن آدھی رات سے شروع ہوجاتا ہے جب کہ اس کے اختتام کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ اور جمرہ العقبہ کی رمی کا وقت دسویں کی نصف رات سے شروع ہوکر گیارہویں تاریخ کی شام تک وسیع ہے۔ اور تینوں جمرات کی رمی کا وقت زوال شمس سے شروع ہوکر بارہویں تاریخ کی شام تک وسیع ہے اور تیرہویں کی رات اس شخص کے لیے ہے جو جلدی کرے اور جو تاخیر سے کرناچاہے، اس کے لیے تیرہویں کی غروبِ شمس تک وقت ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام وادی رات گزارنے کی جگہ ہے اگر لوگ ناجائز تصرفات نہ کریں اور اپنی لالچوں کوملحوظ نہ رکھیں تو یہ وادی حجاج کے لیے تنگ نہیں ہے، اگر اس کی صحیح قدر کی جائے اورہرکوئی قابل کفایت جگہ تک محدود رہے اور باقی اپنے بھائیوں کے لیے چھوڑ دے۔ بصورتِ دیگر ضرورت سے زائد جگہ روکنے پر وہ اس شخص کے گناہ کا ذمہ دار ہوگا جو جگہ نہ ملنے کے سبب منیٰ سے باہر رات گزارے۔ قسم ہے کہ شہر لوگوں کے لیے تنگ نہیں ہوتے بلکہ لوگوں کے اخلاق ہی تنگ ہوجایا کرتے ہیں ۔ بات کوکھول کر بیان کردینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ ’’ حج اور عمرہ کو اللہ کے لیے مکمل کرو۔‘‘ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ ’’مجھ سے مناسک حج و عمرہ سیکھ لو۔‘‘ رہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ((افعل ولا حرج)) تو یہ ایسے شخص کو کہا جائے گا جس سے یوم عید کو کئے جانے والے مناسک میں تقدیم و تاخیرہو جیساکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر یہ الفاظ کہے تھے جن لوگوں سے چار مناسک: رمی، نحر، سرمنڈوانے، طواف اور سعی میں تقدیم وتاخیر ہوئی تھی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے یہ الفاظ اِن غلطیوں کے صدور کے وقت کہے تھے نہ کہ پہلے ہی سے ارشاد فرما دیئے تھے، کیونکہ ((افعل ولا حرج))کے پیغام کو تمام لوگوں تک غلطی کے صدور سے پہلے پہنچا دینا اعمالِ حج میں خلل اندازی کا سبب بنے گا۔ ہم اللہ سے دعاگو ہیں کہ علم نافع، عمل صالح اور اپنی رِضا کے لیے مخلص ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل اور اصحاب رضی اللہ عنہم پر رحمت کرے۔ آمین!
Flag Counter