Maktaba Wahhabi

83 - 95
نے تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں کی۔‘‘(الحج:۷۸) حج اور دین کے دیگر احکامات میں آسانی صحیح دلائل کے امر ہی سے ہوگی جس طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مشروع کیا ہوگا۔ انہی احکامات میں سے حج اور عمرے کی عبادت بھی ہے۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے : ’’حج اور عمرے کو اللہ کے لیے پورا کرو۔‘‘ (البقرۃ:۱۹۶) اور ان کا اِتمام ان کے مناسک کو اس طریقے پر ادا کرنے سے ہوگا جس کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ادا کیاہے۔ جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’بلا شبہ تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہی بہترین نمونہ ہے۔‘‘ (السنن الکبری للبیہقي:۵/۱۲۵) اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’مجھ سے حج و عمرہ کی ادائیگی کے طریقے سیکھ لو۔‘‘ یعنی ان کو اس طریقے کے مطابق اداکرو جس کے مطابق میں نے اداکیا ہے، نہ کہ ان رخصتوں کے مطابق جو علما نے کتاب وسنت سے دلیل کے بغیر تراشی ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور اپنے میں سے اولی الامر کی۔ پس اگر تم میں کسی چیز میں جھگڑا ہوجائے تو اس کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو یہ بہتر ہے اور مال کے اعتبار سے اچھا ہے۔‘‘(النسائ:۵۹) اب اس آیت ِکریمہ میں ہے کہ ہم پر علما کے انہی اقوال کو لینا واجب ہے جن پرکتاب وسنت دلالت کرتی ہو، نہ کہ ان کو جو ہماری خواہشات اور دلچسپیوں کے موافق ہو اور جن کی صحیح دلائل کے اعتبار سے کوئی حیثیت نہ ہو۔اسی طرح شرعی دلائل کو ان کے غیر مدلول معنی میں بھی استعمال نہیں کیا جائے گا۔ جیساکہ یومِ نحر کے اعمال کوایک دوسرے پرمقدم و مؤخر کرنے پر کچھ لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((افعل ولا حرج)) ’’ٹھیک ہے، کرتے رہو اور کوئی حرج نہیں ۔‘‘ اب اگر اس دلیل کو کوئی ہرقسم کی تقدیم و تاخیر کے جواز بلکہ حج کے واجبات و افعال کے ترک کے لیے استعمال کرے تو یہ اس دلیل کا غلط استعمال ہوگا۔ اس قول کو فراموش کردینے
Flag Counter