کو نظر انداز کردینا غلطی ہے۔ اسی طرح فاضل مؤلف نے صاحب کتاب افعل ولا حرج کے اس قول کو بھی ہدف تنقید ٹھہرایا ہے کہ مفتی کو چاہئے کہ ایسے تمام معاملات جن میں کوئی فعل موجود نہ ہو، یاوہ معاملات جن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمہ ارشاد فرمایا ہے یہی کلمہ ہے۔فاضل ناقد کا کہنا ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ اُنہوں نے کس بناپراس نص کو دیگر نصوص پر مقدم کردیا ہے اور اُن سے پہلے اس قول میں ان کے پیشرو کون ہیں ؟اس طرح مؤلف کی اس بات کو بھی غلط قرار دیا ہے کہ عرفہ سے غروبِ شمس سے قبل لوٹنا جائز ہے،کیونکہ عرفہ میں غروب ِشمس تک وقوف کرنا بعض علما کے نزدیک واجب اور بعض کے نزدیک رکن ہے۔ مزید برآں مؤلف کے فقہا پر اس اعتراض کو بھی غلط قرار دیا ہے کہ فقہا فرضی اور تاحال پیش نہ آنے والے مسائل بھی ذکر کیا کرتے ہیں ۔ان کاکہنا ہے کہ فقہا ان مسائل کو اس لیے ذکر کرتے ہیں کہ نئے پیش آمدہ مسائل پران کو منطبق کیا جاسکے اور طالب علم میں فقہی مسائل کے استنباط کا ملکہ پیدا کیاجائے نہ کہ محض اس لیے بغیر قواعد و ضوابط کے فرضی مسائل میں رائے زنی کرتے رہیں ۔ اسی طرح افعل ولا حرج نامی کتاب کے مصنف نے اس بات کو بھی غلط قرار دیا ہے کہ ایامِ تشریق میں زوال سے قبل رمی جمار جائز ہے اور اس باب میں فاضل مؤلف نے علما کے اَقوال نقل کرکے اس موقف کو راجح ثابت کیا ہے کہ زوال سے قبل رمی ناجائز ہے اور اس بحث کی اہمیت کے پیش نظر اس کو تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ جبکہ شیخ فہد کا ان تمام مناقشات سے مقصود محض تسہیل کا حصول ہے۔ اہل علم ہمیشہ سے ایک دوسرے کی تردیدکرتے رہے ہیں جیساکہ امام مالک رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ ’’ہم میں سے ہر کوئی ایک دوسرے کی تردید کر بھی سکتا ہے اور خود اس کی بات کی بھی تردید ہوسکتی ہے سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے۔‘‘ تتمہ از شیخ صالح بن فوزان الفوزان تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے شریعت مقرر کی اور آسان فرمائی۔’’اور اس |