Maktaba Wahhabi

81 - 95
اس مفہوم میں فاضل مؤلف نے کئی ایک علماء کے اقوال نقل کئے ہیں جن میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اور فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن بن ناصر سعدی رحمہم اللہ شامل ہیں ۔ پھر شیخ فہد نے زیر نظر کتابچہ پر عبداللہ بن بیہ کے تحریر کردہ پیش لفظ کا مناقشہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ اُنہوں نے علماے کرام کے کلام کا غلط مفہوم مراد لیا ہے اور اس طرح شیخ نے عبداللہ بن بیہ کی کئی ایک باتوں کو ہدفِ تنقید بنایاہے۔ پھر مؤلف نے شیخ سلمان العودۃ کا مناقشہ کیا ہے اور ان کی کئی ایک باتوں پر تنقید کی ہے اور اُنہیں کئی ایک باتوں پر غوروفکر کی دعوت دی ہے۔ مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کواپنے کلام پرعمل کرنے کی تربیت دیتے تھے اور حج وغیرہ کے اَحکام میں اُنہیں اپنی اتباع پر اُبھارتے تھے اور ان کے دلوں میں نصوصِ شرعیہ کی تکریم و تعظیم کا بیج بوتے تھے۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے بتایا کہ مذکورہ کتاب میں قواعد و ضوابط کی پیروی بھی نہیں کی گئی،کیونکہ افعل ولاحرج کو بنیاد بنا کر دروازہ کھول دینا لوگوں کے لیے احکامِ حج سے عدم توجہی اور ان کی بے قدری کا سبب ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے اُمور کو منضبط کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ ’’مجھ سے مناسک ِحج سیکھ لو۔‘‘ علاوہ ازیں شریعت کے مشکل اُمور کو لوگوں کے سامنے رکھے بغیر احکام شریعت کو ان کے من پسند انداز اور خواہشات ِنفسانیہ کے مطابق پیش کرنے سے عدمِ توازن پیداہوگا اور حج کے شرعی مقاصد کومطلوب طریقے کے مطابق اَدا نہ کرنے اور ان میں پنہاں روحانیت کو نہ اپنانے کا رجحان پیدا ہوگا جب کہ میانہ روی مطلوب ہے اور میانہ روی کتاب وسنت ہی کی پیروی کا نام ہے۔اوریہ کہ بلاشبہ بہت ساری نصوص تشدد اور سختی سے اجتناب کے متعلق وارد ہوئی ہوتی ہیں پس جس طرح تشدد کا انکار ضروری ہے، اُسی طرح اس آسانی کاانکار بھی ضروری ہے جو شریعت سے متصادم ہو۔ اور یہ کہ مفتی کے لیے مناسب ہے کہ فتویٰ دینے سے قبل اپنے نفس کی نجات کے متعلق غور کرے اور پھر فتویٰ دے کیونکہ فتویٰ دینا ربّ العالمین کی طرف سے دستخط کرنے کے مترادف ہے۔ اور اسے مؤلف نے عبادت کے ظاہر میں منہمک ہوجانے اور عبادت کی اصل روح اور مغز کے کھو دینے کو برا قرار دیا ہے اور یہ کہ مناسک کے مقصود اور غرض کو سمجھنا جبکہ عمل کی اہمیت
Flag Counter