Maktaba Wahhabi

80 - 95
یہ گناہ ہے۔ (فتاویٰ الحج والعمرۃ: ص۱۱۱) ٭ مؤلف نے بطورِ دلیل حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کااثر نقل کیا ہے کہ زوال سے پہلے رمی کرنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جب کہ اس روایت کو امام بیہقی نے ضعیف سند کے ساتھ نقل کیا ہے لہٰذا یہ روایت قابل استدلال نہیں ہے۔ (بیہقی:۵/۱۵۲) دوسری طرف ابن ابی شیبہ رضی اللہ عنہ نے وکیع عن ابن جریج عن ابن ابی ملیکہ کے طریق سے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فعل نقل کیا ہے کہ اُنہوں نے زوال سے پہلے چاشت کے وقت رمی کی۔(مصنف ابن ابی شیبہ : ۳/۳۱۹) لیکن راوی حدیث ابن ابی ملیکہ نے اس بات کی صراحت نہیں کی کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کس دن یہ رمی کی تھی،ممکن ہے کہ یہ یوم العید ہو۔بہرحال اس اثر میں احتمال ہے ، اس میں یوم العید یا ایامِ تشریق کو رمی کرنے کے دونوں احتمال موجود ہیں ۔ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ایک اور اثر نقل کیا ہے کہ زوال سے پہلے کی گئی رمی کافی نہیں ہے۔ (التمہید لابن عبدالبر:۷/۲۷۲) …٭…٭…٭… تقدیم از الشیخ صالح بن فوزان الفوزان تمام تعریفیں ربّ العالمین کے لیے ہیں اور درود و سلام ہوں ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل ، اصحاب اور تابعین پر۔ حمد و ثنا کے بعد! میں نے فضیلۃ الشیخ فہد بن سعد ابو حسین کی لکھی ہوئی یہ بحث بعنوان ’’کیف نفھم التیسیر؛ وقفات مع کتاب اِفعل ولاحرج‘‘ پڑھی ہے جو میرے علم کے مطابق ایک گراں قیمت بحث ہے۔م ؤلف نے اسے اس مقدمہ سے شروع کیا ہے جس میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ کوئی بھی دل اس وقت تک حق پرقائم رہ سکتا ہے جب تک وہ امر ونواہی کی تکریم کرے۔مناسک ِحج بھی اللہ کے شعائر میں سے ہیں اور ان کی تکریم و تعظیم کرنا بھی دلوں کی پاکیزگی کی علامت ہے۔ جب کہ اَوامر کی تکریم کی نشانی یہ ہے کہ ان کی اَدائیگی کے اَوقات اور مقررہ حدود کا خیال رکھا جائے، ان کے اَرکان اور واجبات کی جستجو کی جائے اور اُنہیں ان کے مقررہ اوقات میں بہ تمام وکمال اَدا کرنے کی کوشش کی جائے اور
Flag Counter