Maktaba Wahhabi

79 - 95
وضاحت: اس مسئلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے۔مؤلف نے زوال سے قبل رمی کرنے کے جواز پر علما کے اَقوال ذکر کئے ہیں ،لیکن یہاں زوال سے قبل عدمِ جواز کے اقوال بھی موجود ہیں : ٭ ابن جریج فرماتے ہیں کہ میں نے عطا کو فرماتے ہوئے سنا:’’زوالِ شمس سے پہلے جمرہ کی رمی نہ کرنا‘‘اب میں نے اپنے آپ کو اس کا عادی بنا لیاہے۔ ٭ شیخ صالح بلیہی رحمہ اللہ کی کتاب السلسبیلمیں بھی زوال سے پہلے رمی کرنے کے عدمِ جوازکا تذکرہ موجود ہے۔ (۱/۴۱۰) ٭ شیخ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی اسی کو اختیار کیاہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اسی پر عمل ہے۔نیز ائمہ ثلاثہ اور جمہور اہل علم بھی اسی کے قائل ہیں کہ زوال سے پہلے رمی کرنا جائز نہیں ہے۔ (الشرح الکبیر:۹/۲۴۰، المجموع:۸/۲۶۹) ٭ شیخ محمد بن ابراہیم، شیخ عبدالحمید بن حمید، سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز اور شیخ محمد بن صالح عثیمین بھی زوال سے پہلے رمی جمار کے عدمِ جواز کے قائل ہیں ۔ ٭ نافع سے مروی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے: ’’لا ترم الجمار في الأیام الثلاثۃ حتی تزول الشمس…‘‘ ’’ ان تین دنوں میں زوالِ شمس سے پہلے رمی نہ کرنا۔‘‘(موطا:۲۱۷، بیہقی:۵/۱۴۹) ٭ اگر زوال سے پہلے رمی کرنا جائز ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ضعفا اور عورتوں کو ضرور اس کی اجازت دے دیتے جیسا کہ مزدلفہ سے جلدی منیٰ جانے کی اجازت دے دی تھی، کیونکہ یہ انتہائی رش کا مقام ہے۔ ٭ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے زوال کے بعد رمی کرنے کے وجوب پر اہل علم کا اجماع نقل کیا ہے۔ (التمہیدلابن عبدالبر:۶/۲۷۲) ٭ شیخ محمد صالح العثیمین فرماتے ہیں کہ اگر زوال سے پہلے رمی کرنا جائز ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ضرور زوال سے پہلی رمی کرتے،کیونکہ یہ بندوں پرآسان ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاطریقہ کار یہ تھاکہ ہمیشہ دواختیاری اُمور میں سے آسان ترپر عمل کرتے تھے اگر وہ گناہ نہ ہوتا۔ یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس آسان امر کو اختیار نہ کرنا اس امر پر دلالت کرتاہے کہ
Flag Counter