Maktaba Wahhabi

78 - 95
اس کی عظمت پیدا کیا کرتے تھے۔امام مالک رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ اگر کسی شخص نے مکمل رمی چھوڑ دی یا ایک جمرہ کی رمی چھوڑ دی یا ایک کنکری کم ماری اور ایامِ منیٰ گزر گئے تو اس پر دم ہے۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ جس شخص کی ایک کنکری رہ گئی، وہ ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔ اَوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ صدقہ کرے۔امام ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :ایک ،دو اور تین کنکریاں کم ہونے کی صورت میں کھانا کھلائے گا لیکن اگر چار یا چار سے زائد کنکریاں نہ ماریں تو اس پر دم ہے۔ امام لیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’ایک کنکری میں بھی دم ہے۔‘‘ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک کنکری میں ایک مد اور دو کنکریوں میں دو مد کھانا کھلایا جائے گا جب کہ تین کنکریوں کے رہ جانے میں دم ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا دوسرا قول امام لیث رحمہ اللہ کی مانند بھی منقول ہے، لیکن یہ پہلا قول زیادہ مشہور ہے۔ (التمہید لابن عبد البر:۱۷/۲۵۵، الاستذکار: ۱۳/۲۲۳) پتہ نہیں سلف نے ہمارے اوپر سختی کی ہے یا ہم تساہل برتنے لگ گئے ہیں ۔ سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’حاجی کے لیے ضروری ہے کہ اس کو کنکری کے حوض میں گرنے کا علم ہو یا ظنِ غالب ہو۔ اگر کسی شخص کو اس کی کنکری حوض میں گرنے کا علم یا ظن غالب نہیں ہے تو اس پر دوبارہ کنکری مارنا واجب ہے۔ اگر اس نے رمی کا وقت گزر جانے تک دوبارہ کنکری نہ ماری تواس پر دم ہے جس کو وہ مکہ میں ذبح کرے گا اور وہاں کے فقرا میں تقسیم کردے گا۔ (فتاویٰ شیخ ابن باز:۱۷/۳۷۹) شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ اگر کسی شخص کو یہ شک پڑ جائے کہ اس کی کچھ کنکریاں حوض سے باہر گر گئی ہیں تو اس کا کیا حکم ہے؟ تو شیخ نے جواب دیا: اس پر تکمیل واجب ہے۔ (فتاویٰ الحج والعمرۃ:ص۱۱۳) اگرچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ بعض نے چھ اور بعض نے سات کنکریاں ماریں مگر افضل اور اَکمل سات ہی ہیں ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سات کنکریاں ماریں تھیں ۔ 5.فاضل مؤلف اپنی کتاب کے صفحہ ۹۰ پر لکھتے ہیں کہ ’’میری رائے کے مطابق زوال سے پہلی رمی کی جاسکتی ہے۔‘‘
Flag Counter