Maktaba Wahhabi

77 - 95
ہیں کہ جس شخص نے سات سے کم کنکریاں ماریں اور وہ تدارک نہ کرسکا تو اس پر دَم ہے۔ (فتح الباری: ۲/۶۷۹) امام نووی رحمہ اللہ جمرہ عقبہ کی رمی میں علما کے مذاہب بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک یہ واجب ہے۔ [المجموع للنووي:۸/۱۷۷] امام نووی رحمہ اللہ ہی امام مالک رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ جس شخص کی تین کنکریاں فوت ہوگئیں ، اس پر دم دینا واجب ہے۔ [المجموع:۸/۲۶۹] امام نووی رحمہ اللہ ہی امام مالک سے نقل کرتے ہیں کہ جس شخص کی ایک کنکری رہ گئی، اس پربھی دم دینا واجب ہے۔ [المجموع:۸/۲۷۰] 4. فاضل مؤلف اپنی کتاب کے صفحہ ۸۹ پرکنکریوں کی تعداد کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’بسا اوقات ان ذیلی اُمور میں تاکید وسوسہ کا سبب بن جاتی ہے اور حاجی کوشک ہوجاتا ہے کہ آیا اس نے چھ کنکریاں ماریں یا سات ، اس کی کنکریاں حوض کے اندر گری ہیں یا باہر؟ سنن نسائی میں سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع سے واپس آرہے تھے بعض کہتے کہ ہم نے سات کنکریاں ماری ہیں ، بعض کہتے کہ ہم نے چھ کنکریاں ماری ہیں اور ہم میں سے کوئی بھی کسی پر عیب نہ لگاتا تھا۔‘‘ وضاحت:رمی کے سو فیصد مکمل ہو نے کو یقینی بنانا دراصل شعائر ِحج کی تعظیم ہے۔علماء اور مصلحین کا یہی طریقہ کار رہا ہے، کیونکہ اس منسک کا کمال ہی مطلوب ہے۔البتہ چھ کنکریوں کے کفایت کرجانے کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ مجاہد، اسحق اور ایک روایت میں امام احمد کے نزدیک چھ کنکریاں ہی کفایت کرجائیں گی۔ ان کی دلیل سیدنا سعد بن ابی وقاص کی مذکورہ حدیث ہے۔ [الاستذکار لابن عبدالبر: ۱۳/۲۲۴، الشرح الکبیر:۹/۲۴۳] جب کہ امام شافعی رحمہ اللہ ،طاؤس،اصحابُ الرائے اور ایک روایت میں امام احمد کے نزدیک سات کنکریاں مارنا واجب ہے۔اُنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے دلیل لی ہے،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات کنکریاں ماریں تھیں ۔ (الشرح الکبیر:۹/۲۴۳) سلف رمیِ جمار میں تاکید سے کام لیتے اور اس کا اہتمام کرتے تھے اور لوگوں کے دلوں میں
Flag Counter