Maktaba Wahhabi

76 - 95
واجب ہے اور بعض نے اس کو رکن کہا ہے۔ ‘‘ ( اقتضاء الصراط المستقیم: ۱/۳۱۹) 2.اگر غروبِ آفتاب سے پہلے عرفہ سے نکلنا جائز ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ضعفاء اور عورتوں کو ضرور اس کی اجازت دے دیتے جیساکہ مزدلفہ سے جلدی نکلنے کی اجازت ہے۔ 3. اگر اس حدیث کو اس کے ظاہر پر بھی محمول کرلیا جائے تو دیگر نصوص غروبِ آفتاب تک وقوفِ عرفہ کے وجوب پر کافی ہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غروبِ آفتاب تک وہاں قیام کیا اور غروبِ آفتاب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کوئی شخص بھی نہ نکلا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((خذوا عني مناسککم)) ’’مجھ سے احکامِ مناسک سیکھ لو۔‘‘ 4. عروۃ بن مضرس نے رات کو وقوف کیاتھا۔ اگر اس نے دن کو وقوف کیاہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے حج کے بارے میں سوال نہ کرتا کہ میرا حج ہے کہ نہیں ؟ نیز یہ حدیث ’حج کافی‘ پردلالت کرتی ہے نہ کہ ’حج کامل‘ پر۔ جیسا کہ اگر کوئی شخص میقات سے اِحرام نہ باندھے اور میقات سے گزرنے کے بعد باندھ لے تو اس کا حج صحیح ہوگا، لیکن اس پردَم ہے۔ 3. فاضل مؤلف اپنی کتاب کے صفحہ ۸۵ پر رمی جمار کے متعلق لکھتے ہیں کہ جمہور اہل علم کے نزدیک رمی جمار واجب ہے، کیونکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے: ((خُذُوا عني مناسککم)) جب کہ امام مالک رحمہ اللہ (سے ایک روایت میں ) یہ سنت ِمؤکدہ ہے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بھی یہی قول ہے، لیکن راجح مذہب جمہور کاہے کہ رمی جمار واجب ہے۔ پھر مؤلف نے کتاب کے حاشیے میں المجموع للنووي (۸/۱۳۸) اور فتح الباری (۳/۵۷۹) کا حوالہ دیا ہے۔ وضاحت:فاضل مؤلف نے امام مالک رحمہ اللہ سے المجموع اور فتح الباری کے حوالے سے سنت ِمؤکدہ نقل کیا ہے، لیکن امام ابن حجر رحمہ اللہ کے حوالے سے، جو میں جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ جمہور اہل علم کے نزدیک رمی جمار واجب ہے اور اس کے چھوڑنے پردَم ہے اور مالکیہ کے نزدیک سنتِ مؤکدہ ہے جس کو ادا کرنا ضروری ہے۔مالکیہ کے ہاں ایک روایت یہ بھی ہے کہ جمرہ عقبہ کی رمی کرنا حج کا رکن ہے۔اسکے چھوڑنے سے حج باطل ہوجاتاہے۔(فتح الباری: ۳/۶۷۷) اس عبارت کے دو صفحات بعد،میں نے پڑھا ہے کہ ابن حجر رحمہ اللہ امام مالک رحمہ اللہ سے روایت کرتے
Flag Counter