کفایت کرجائے گا۔ امام مالک رحمہ اللہ کے علاوہ تمام ائمہ کا یہی مذہب ہے۔امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم کسی کو بھی نہیں جانتے جس نے امام مالک رحمہ اللہ کی موافقت کی ہو۔ بعض اہل علم کے نزدیک اس پر دم ہے، لیکن اَقرب یہی ہے کہ اس پر کچھ نہیں ہے، اس کی دلیل عروہ بن مفرس کی حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((من أدرک معنا ھذہ الصلاۃ وأتٰی عرفات قبل ذلک لیلًا أونھارًا،فقد تمَّ حجہ وقضٰی تفثہ)) وضاحت :ائمہ اربعہ اس امر پر متفق ہیں کہ حاجی پر غروبِ آفتاب تک وقوفِ عرفہ واجب ہے۔ (مفید الأنام لابن جاسر: ص۳۱۶) ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ عطا، ابوثور، اسحق، داؤد اور طبری کا بھی یہی قول ہے۔ (الاستذکار:۱۳/۳۰) امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’جمہور اہل علم کے نزدیک غروبِ آفتاب تک وقوفِ عرفہ واجب ہے اور بعض نے اس کو رکن قرار دیا ہے۔‘‘ (اقتضاء الصراط المستقیم:۱/۳۲۱) تاہم غروبِ آفتاب سے پہلے چلے جانے والے شخص کے حج کے بارے میں ائمہ کرام کا اختلاف ہے۔ ائمہ ثلاثہ نے ایسے شخص کے حج کو صحیح قرار دیا ہے جب کہ امام مالک رحمہ اللہ نے باطل کہا ہے۔(الاستذکار:۱۳/۲۹) جبکہ فاضل مؤلف نے اس رائے کے خلاف کہا ہے کہ غروبِ آفتاب تک وقوف کرنا سرے سے واجب ہے ہی نہیں ۔بلکہ غروبِ آفتاب سے عرفہ سے چلا جانا جائز ہے اور موصوف نے عروۃ بن مفرس کی حدیث سے استدلال کیا ہے جب کہ یہ حدیث دو وجوہ سے ناقابل استدلال ہے: 1.مشرکین غروبِ آفتاب سے پہلے ہی عرفات سے واپس آجاتے تھے۔چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے غروبِ آفتاب کے بعد آنے کا حکم دیا۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’مشرکین غروبِ آفتاب سے پہلے عرفہ سے نکل جاتے تھے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غروبِ آفتاب کے بعد نکل کر ان کی مخالفت کی ہے۔ لہٰذا جمہور علما کے نزدیک غروب کے بعد نکلنا |