اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : شکوت إلی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم أني أشتکي فقال: ((طوفي من وراء الناس وأنکِ راکبۃ)) (زاد المعاد:۲/۲۹۹) ’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیماری کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں سے ہٹ کر سواری پر سوار ہوکر طواف کرلے۔‘‘ امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بلا شبہ سیدہ اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہا کا طواف’طوافِ وداع‘ تھا۔ ٭ اسی طرح جو شخص دورانِ حج قربانی نہ پائے،اسے متبادل شے کی طرف رہنمائی کردی گئی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ فِیْ الْحَجِّ وَسَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ﴾ ’’جو شخص قربانی نہ پائے وہ تین دن دورانِ حج میں اور سات دن واپس وطن لوٹ کر روزے رکھے ۔ یہ کل دس روزے بن جاتے ہیں ۔‘‘ (البقرۃ:۱۹۶) ٭ جب کہ بعض اَعذار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ رخصت بھی دی ہے جیساکہ((اِفعل ولا حرج)) سے معلوم ہوتا ہے۔اس سے محسوس ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض عذروں پر رخصت دی ہے اور بعض پر نہیں دی۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے افعالِ حج میں بھی فرق کیا ہے۔ چنانچہ حائضہ عورت کو طوافِ وداع چھوڑنے کی اجازت تو دے دی ہے مگر طوافِ افاضہ چھوڑنے کی اجازت نہیں دی جیساکہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے معلوم ہوتاہے۔ اس سے معلوم ہواکہ نہ تو ہرفعل میں رخصت دی جاسکتی ہے اور نہ ہی ہر عذر فعل کو ساقط کرتا ہے،کیونکہ بذاتِ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اَعذار اور اَفعال کے درمیان فرق کیاہے۔چنانچہ ((افعل ولا حرج)) کے تحت ہر فعل میں رخصت دینا، یا ہرعذر کی بنا پر فعل کو ساقط کردینا غلطی اور خطا ہے۔ اسی طرح ((افعل ولا حرج))کے شعار کے تحت اَعمالِ حج میں مطلقاً تقدیم وتاخیر جائزنہیں ہے۔ چنانچہ متمتع کے لیے حج کی سعی وقوفِ عرفہ سے پہلے کرنا غیر درست ہے۔ 2.فاضل مؤلف اپنی کتاب کے صفحہ ۷۷ پر وقوفِ عرفہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص غروبِ آفتاب سے پہلے میدانِ عرفات سے نکل جاتا ہے تو اس کا وقوف اس کو |