Maktaba Wahhabi

73 - 95
سے اپنے مناسکِ حج سیکھ لو۔‘‘ پھر جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تقدیم و تاخیر کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے اس کو درست قرار دیا، لیکن شروع اور ابتدا سے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے تربیت نہیں کی تھی کہ اس طرح تقدیم و تاخیر بھی جائز ہے۔ اہل علم کا تربیت کرنے کاطریقہ کار یہی رہا ہے کہ وہ لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع پر اُبھارتے اور سنت کی تعظیم ان کے دلوں میں راسخ کرتے تھے اور احکامِ شریعت میں تساہل سے بچنے کی تلقین کرتے رہتے تھے۔ مؤلف ’’افعل ولا حرج‘‘کی بعض علمی لغزشیں ٭ فاضل مؤلف نے اپنی کتاب’افعل ولا حرج‘ میں حج کے چند اُمور میں تسہیل و تخفیف ذکر کی ہے جو ہماری نظر میں غیر صحیح ہے۔ہم ان اُمور میں سے چند ایک کوبطورِ مثال نقل کرتے ہیں : 1.مثال کے طور پر مؤلف اپنی کتاب کے صفحہ ۶۴ پر عبداللہ بن عمرو بن العاص سے مروی حدیث ((أن رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم … ماسئل عن شيء ؛ قدَّم ولا أخَّر إلا قال: اِفعل ولا حرج)) نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ’’اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فتویٰ سے ملتے جلتے یا غیر منصوص اَحکامات میں مفتی کاشعار ((اِفعل ولاحرج)) ہی ہوناچاہئے جو ایک اچھا رویہ ہے۔‘‘ وضاحت :معلوم نہیں کہ فاضل مؤلف نے اس نص کو بقیہ نصوص پرکیسے لاگو کردیا ہے۔ کیونکہ آپ نے ہمیشہ جواز کا فتویٰ نہیں دیا اور بعض اوقات رخصت نہیں دی۔ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ((افعل ولا حرج)) کہا ہے نہ کہ ((اُترک ولا حرج))۔ پھر فتویٰ کے لیے (( افعل ولا حرج))کا شعار غیر درست ہے۔کیونکہ متعدد اُمور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ((اِفعل ولا حرج)) سے فتویٰ نہیں دیا بلکہ کوتاہی کی حالت کو دیکھ کر حکم لگایا۔ ٭ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طوافِ اِفاضہ چھوڑنے کی اجازت نہیں دی اور سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں فرمایا : ((أحابستنا ھي)) ’’کیا یہ ہمیں روکنے والی ہے۔‘‘ ٭ اور سیدہ اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کوبیماری کی وجہ سے طوافِ وداع چھوڑنے کی رخصت نہیں دی۔ سیدہ
Flag Counter