Maktaba Wahhabi

72 - 95
جائے تولوگ اسی وقت میں اِزدحام کرنا شروع کردیں گے اور آنے والے سالوں میں سوال کریں گے کہ رمی کا اوّل وقت کون سا ہے:طلوعِ شمس یااذانِ فجر؟ ٭ بہرحال اُصول یہ ہے کہ اگر مشقت حقیقتاً پائی جائے تو حصولِ آسانی اور تخفیف کے لیے فتویٰ دینا ضروری ہے۔البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تربیت کچھ اس انداز سے کرتے تھے کہ وہ نصوصِ شرعیہ کی تعظیم کریں ۔مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((من حجَّ فلم یرفث ولم یفسق رجع من ذنوبہ کیوم ولدتہ أمہ)) ’’جس شخص نے حج کیا اور فسق و فجور کا کام نہ کیا، وہ گناہوں سے اس طرح صاف ہوگیا جیسے آج ہی پیدا ہواہو۔‘‘ (صحیح بخاری:۳/۱۵۲۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کے دلوں میں حج کی عظمت ڈالتے: ﴿ذٰلِکَ وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَائِرَ اﷲِ فَإنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ﴾ (الحج:۳۲) ’’جوشخص شعائر اللہ کی تعظیم کرتاہے، یقینا یہ دلوں کے تقویٰ کی بات ہے۔‘‘ علما اور دعاۃ کوبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی اُسوۂ حسنہ پرعمل کرنا چاہئے اور ان کے دلوں میں احکامِ شریعت کی عظمت پیدا کرنی چاہئے۔ آج حالت یہ ہے کہ لوگ رخصتیں اور آسانیاں تلاش کرتے پھرتے ہیں اور شرعی اَحکام سے خلاصی حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔اس کا بنیادی سبب دعوت و تبلیغ کی کمزوری ہے،کیونکہ ہم لوگوں کے دلوں میں احکامِ شریعت کی تعظیم پیدا نہیں کرتے۔ فاضل مؤلف کو چاہئے تھا کہ وہ بھی اپنی کتاب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس شعار((خُذوا عني مناسککم))کواختیارکرتے اور تربیت کرنے کا یہی بہترین طریقہ ہے۔اِسی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور اعتقاد کی مکمل اتباع ہے۔ لوگوں کی اس انداز سے تربیت کی جائے کہ وہ حجِ مبرور کے لیے کوشش کریں اور بعض شرعی اَحکام میں کوتاہی کرنے سے اجتناب کریں اور اس مقصد ِسفر سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں جو بسا اَوقات زندگی میں ایک ہی مرتبہ ہوتاہے اور حاجی اس عظیم الشان سفر کے نشانات واثرات کو ساری زندگی نہیں بھول پاتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کی یہی تربیت کی تھی کہ (( خُذوا عنِّي مناسککم)) ’’مجھ
Flag Counter