Maktaba Wahhabi

71 - 95
٭ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہم پر مبنی مشقت اورحقیقی مشقت میں فرق کردیا۔اس سے معلوم ہواکہ آسانی کا فتویٰ دینے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آیا حقیقی مشقت پائی بھی جاتی ہے یا نہیں ؟اور یہ جاننابھی ضروری ہے کہ آیا یہ مشقت حکم شرعی ہے یا لوگوں نے خود اس کو اپنے اوپر مشقت بنالیا ہے۔مثلاً زوال سے پہلے رمی کرنے کامسئلہ رمی جمار کا وقت زوالِ آفتاب سے لے کر غروبِ آفتاب تک ہے۔ جلدی کرنے والا زوال کے فوراً بعد رمی کرلے۔ یہاں لوگوں نے خود اپنے اوپر مشقت پیداکرلی ہے کہ سب لوگوں کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ زوال کے فوراً بعد رمی کرلیں ۔ حالانکہ رمی کا وقت غروبِ آفتاب تک ہے۔یہاں حکم شرعی کا وقت وسیع ہے جس کو لوگوں نے خود تنگ کرلیا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ گھنٹہ دو گھنٹے کے بعد رش کم پڑ جاتاہے اور رمی کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ یہاں حکم شرعی میں مشقت نہیں ہے بلکہ یہ مشقت لوگوں کی خودساختہ ہے۔ اگر حجاجِ کرام کی تعداد کم ہوجائے مثلاً ایک لاکھ اور ان میں سے ہر شخص یہی کوشش کرے کہ جمرات کے قریب ہی اس کو جگہ مل جائے جس سے جمرات کے قریب سخت ازدحام پڑجائے گا۔اب لوگ آکر سوال کریں کہ ہم پر آسانی کرو اور ہمیں مشقت سے بچاؤ اور جمرئہ کبریٰ کے پیچھے منیٰ سے تھوڑا سا باہر رہائش کافتویٰ دو کیونکہ منیٰ میں سخت رش ہے۔ ہم ان کو یہی جواب دیں گے کہ منیٰ وسیع ہے اور جمرات کے قریب رہائش کرنے سے تم نے خود اس وسیع جگہ کو تنگ کرکے اپنے اوپر مشقت ڈال لی ہے۔ لہٰذا تم منیٰ میں ہی قیام کرو، منیٰ سے باہر جائز نہیں ہے۔لیکن اگر واقعی پورا منیٰ بھرجائے اور مشقت یقینی ہوجائے تب ان کو خارجِ منیٰ رہائش کی اجازت دے دی جائے گی۔ یہی صورتِ حال ’رمی جمار‘ میں ہے۔اگر زوالِ آفتاب سے لے کرغروبِ آفتاب تک مسلسل اِزدحام جاری رہے اورمشقت حقیقتاً پائی جائے تو غروبِ آفتاب کے بعد بھی رمی کی اجازت دی جاسکتی ہے، لیکن فی الواقع ایسانہیں ہے،کیونکہ گھنٹے دو گھنٹے کے بعد رش میں کمی ہوجاتی ہے۔ آج اگر لوگوں کو زوال سے پہلے یا نمازِ فجر کے بعد رمی کرنے کا فتویٰ دے دیا
Flag Counter