کی خیرخواہی ہے اور ان اُمور سے منع کیاہے جن میں بندوں کانقصان ہے۔‘‘ (قاعدۃ في المحبۃ للشیخ ابن تیمیۃ: ص۱۸۳) امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اللہ ربّ العزت نے اپنے بندوں پرجو معمولی سی مشقت ڈالی ہے وہ شارع کا مقصود نہیں ہے بلکہ اس مشقت سے مکلف کو جو فوائد حاصل ہوتے ہیں ، وہ دراصل شارع کا مقصود ہے۔‘‘ (الموافقات:۲/۲۱۵) ٭ لہٰذا ضروری ہے کہ آسانی مقاصد ِشریعت کے ساتھ مقید ہو اور معاشرے کے لئے مصالح کے حصول کا سبب ہو۔چنانچہ بعض مصلحتیں نفوس پر بھاری اَحکام کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں ۔امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’بسا اوقات ڈاکٹر مریض کو اس لیے کڑوی دوا دے دیتا ہے تاکہ اس کو فائدہ ہو‘‘۔ (الموافقات:۷/۲۱۹) 4.شرائط کی رعایت رکھے بغیر مطلقاً قواعد کو لے لینا بھی بڑی غلطی ہے۔ تخفیف کے لیے مؤثر مشقت کی شرائط کوسمجھے بغیر تخفیف حاصل کرلینے سے کبھی ہم بعض ایسے اَوقات میں بھی تخفیف کرلیں گے جو کہ درحقیقت محل تخفیف نہیں ہیں ۔ جیسا کہ سیدہ اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اور کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری بیٹی کاخاوند فوت ہوگیاہے اور اس کی آنکھیں خراب ہوگئی ہیں ۔ کیا میں اس کو سرمہ ڈال دوں ؟نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین مرتبہ کہا:’نہیں ‘ اور ہربار فرمایاکہ یہ تو صرف چار ماہ دس دن ہیں ۔دورِ جاہلیت میں تمہاری یہ حالت تھی کہ متوفی عنہا زوجہا (بیوہ) ایک سال تک بیٹھی انتظارکرتی رہتی، اورسال گزرنے کے بعد لید پھینکتی تھی۔ (صحیح بخاری: ۵۳۳۶) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک انصاری عورت کی شادی ہوگئی اور وہ بیمار ہوگئی۔ بیماری کی وجہ سے اس کے سرکے بال گرگئے۔ چنانچہ اُنہوں نے اس کو وِگ لگانے کاارادہ کیا اور اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لعن اﷲ الواصلۃ والمستوصلۃ)) (فتح الباری:۵۹۳۴) ’’اللہ تعالیٰ وِگ (مصنوعی بال) لگانے اور لگوانے والی پر لعنت کرے۔‘‘ |