Maktaba Wahhabi

69 - 95
کی بجائے شریعت کی نظر سے دیکھنا چاہئے،کیونکہ دین بہرحال پوری اُمت اور معاشرے کے مصالح کو سامنے رکھ کر مشروع کیا گیا ہے۔ ٭ علاوہ ازیں اَحکامِ شریعت کی حکمتیں کبھی ظاہر ہوتی ہیں اور کبھی مخفی۔ اس لیے شارع لوگوں کو مشقت میں نہیں ڈالنا چاہتا، لیکن شارع کا مقصود یہ بھی نہیں کہ مطلقاً عام مشقت بھی لوگوں کو نہ کرنی پڑے۔ شارع نے اَحکامات کی تشریح میں بندوں کے لیے دنیا وآخرت دونوں جہانوں کی مصلحتیں رکھی ہیں اوریہ مصلحتیں بسا اوقات اعمالِ شاقہ (پرمشقت کاموں )کے بغیر حاصل نہیں ہوتیں جیسے حج اور جہادفی سبیل اللہ ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’فاﷲ تعالیٰ إنما حرم علینا الخبائث لما فیھا من المضرّۃ والفساد،وأمرنا بالأعمال الصالحۃ لما فیھا من المنفعۃ والصلاح لنا،وقد لا تحصل ھذہ الأعمال إلا بمشقۃ کالجہاد والحج والأمر بالمعروف والنھي عن المنکر وطلب العلم فیتحمّل تلک المشقۃ،ویُثاب علیھا لما یعقبعھا من المنفعۃ کما قال صلی اللہ علیہ وسلم لعائشۃ لما اعتمرت من التنعیم عام حجۃ الوداع ((أجرک علی قدر نصبک)) وأما إذا کانت فائدۃ العمل منفعۃ لا تقاوم مشقتہ فھذا فساد، واﷲ لایحب الفساد… الخ)) (الفتاویٰ: ۲۵/۲۸۲) ’’اللہ تعالیٰ نے خبائث کو اس لیے حرام کیا ہے، کیونکہ ان میں ضرر اور فساد ہے، اورنیک اعمال کرنے کا ہمیں اس لیے حکم دیا ہے، کیونکہ ان میں فوائد اور صلاح وفلاح ہیں ۔ اوربسااوقات یہ نیک اعمال مشقت کے بغیرحاصل نہیں ہوتے جیسے حج، جہاد، امربالمعروف ، نہی عن المنکراور طلبِ علم وغیرہ۔اس مشقت کو برداشت کیا جائے گا،کیونکہ اس کے بدلے میں عظیم فوائد و منافع ہیں جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہا تھا: تجھے تیری مشقت کے برابر اجرملے گا، لیکن اگر عمل کافائدہ مشقت کے برابر نہ ہو تو یہ فساد ہے اور اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں فرماتے۔‘‘ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ نے اگر کسی کام کاحکم دیاہے تو اپنی حاجت کے لیے نہیں ، اور اگر کسی کام سے منع کیا ہے تو بخل کرتے ہوئے نہیں ۔ بلکہ ان اُمور کا حکم دیاہے جن میں بندوں
Flag Counter