Maktaba Wahhabi

53 - 79
مثالوں میں ہوتا یوں ہے کہ دیگر تعلیمی اداروں کی طرح دینی مدارس سے بھاگنے والے یا وہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے بعض نوجوان شدت پسندوں کے ہتّھے چڑھ جاتے ہیں ، وہ ان کی ’برین واشنگ‘ کرکے اس طرح کی وارداتوں کے لیے اُنہیں تیار کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ کیا پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں صرف مذہبی انتہا پسند ملوث ہیں ؟ ہرگز نہیں ۔ کراچی میں آئے دن ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہورہے ہیں ۔ کراچی کے ڈی آئی جی پولیس نے پریس کانفرنس میں واضح طور پرکہا کہ ہر جماعت کا ایک عسکری ونگ ہے جو مسلح نوجوانوں پرمشتمل ہے۔جب تک یہ باقی رہتے ہیں ،ایسے واقعات بھی ہوتے رہتے ہیں ۔ بلوچستان لبریشن آرمی میں بھی مذہبی انتہا پسند شامل نہیں ہیں ۔ کوئٹہ میں یہ گروہ پنجابیوں کو نشانہ بنا رہا ہے، ان کے محرکات بھی مذہبی نہیں ہیں ۔ بلوچستان کے بہت سے سکولوں میں پاکستان کا پرچم تک نہیں لہرایاجاتا۔ وہاں وفاقِ پاکستان کے خلاف نفرت پھیلائی جارہی ہے۔ ہمارے دانشور جو بے حد جذباتی انداز میں دینی مدارس کو بند کرانے کی مہم برپا کئے ہوئے ہیں ، ان کی طرف سے ان سیکولر انتہا پسند گروہوں پرپابندی کامطالبہ کبھی سامنے نہیں آیا،اس منتخب اخلاقیات کاکوئی جواز نہیں ؟اگر کوئی مذہب کے نام پر دہشت گردی کرتا ہے یا لسانی عصبیت اور صوبائیت کی بنیاد پر خون خرابہ کرتا ہے، دونوں برابر کے مجرم ہیں ۔ ان میں سے کسی کے بارے میں نرم گوشہ نہیں ہونا چاہئے۔ یہ قومی جسد کے لیے بلا شبہ ناسور ہیں ۔ فرض کیجئے کہ کسی کالج کا طالب علم شرپسندوں کی ’برین واشنگ‘ یا امریکہ مخالف جذبات کی شدت میں دہشت گردوں کی صف میں شامل ہوجاتا ہے۔ کیا اس کے اس ذاتی جرم کی بنا پر کہا جائے گا کہ اس کالج کا نصاب اور اس کااَساتذہ اس کے عمل کے ذمہ دار ہیں ؟ کوئی دانش مند ایک طالب علم کی وجہ سے کسی کالج کو نہ تو ذمہ دار ٹھہرائے گا اور نہ ہی اس کالج کو اس بنا پر بند کرنے کی تجویز دے گا، کیونکہ وہ اچھی طرح سمجھتا ہے کہ یہ اس نوجوان کاذاتی عمل ہے۔ یہ بات افسوسناک ہے کہ دینی مدارس کے متعلق اس اُصول کو قابل اطلاق نہیں سمجھا جاتا۔ کیا یہ امتیاز اور تعصب عقلی دیانت کے منافی نہیں ہے؟ایک انصاف پسند ضمیر اس واضح امتیاز کی پالیسی کو کیونکر گوارا کرسکتا ہے۔ جناب شفقت محمود دینی مدارس کی بندش کو دہشت گردی کے مسئلے کا حل بتانے کے فوراً بعد
Flag Counter