کردیا جائے بلکہ ہونا یہ چاہئے کہ اس کے ذمہ داران کے خلاف دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے پر مقدمات قائم کئے جائیں اور قانونی طریقہ کار اپناتے ہوئے اُنہیں عدالتوں سے سزائیں دلوائی جائیں ۔ گذشتہ چند برسوں میں ہماری صحافت میں ایک نیا رجحان سامنے آیا ہے کہ چند ہم خیال صحافی کسی موضوع پر تکرار کے ساتھ اظہار خیال کرکے hype پیدا کرکے جذباتی فضا بنا دیتے ہیں ۔لال مسجد کے معاملے میں بھی اُنہوں نے یہی کیا۔جامعہ حفصہ کی طالبات کی سرگرمیوں کو مبالغہ آمیز طریقے سے پیش کرکے ریاست کی رِٹ کو شدید خطرات سے دوچار ہوتے دکھایاگیا۔ وہ حکومت اور قوم کو بتا رہے تھے کہ اگران طالبات پر قابو نہ پایاگیاتو ریاست سیکورٹی کے شدید مسائل کا سامنا کرسکتی ہے۔ بعد میں جب سوات کے طالبان کے ایک مختصر گروہ نے بونیر پر قبضہ کرلیا تو ہاہاکار مچا دی گئی کہ تھوڑے دنوں میں یہ اسلام آباد پر قابض ہوجائیں گے، حالانکہ یہ ناممکن تھا۔ دینی مدارس کے متعلق بھی یہی حکمت ِعملی کارفرما نظر آتی ہے۔پاکستان کے دینی مدارس کی تعداد تقریباً پندرہ ہزار بتائی جاتی ہے۔ اس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کی تعداد کئی لاکھ ہے۔ پاکستان کے عوام یہ جاننے کا حق رکھتے ہیں کہ ان مدارس میں زیر تعلیم طلبا کی تعداد کتنی ہے جنہیں دہشت گردی میں ملوث ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا؟ ان کا تعلق کن دینی مدارس سے ہے؟ ان کو گمراہ کرنے والے اَساتذہ کے نام کیا ہیں ؟ کیا پاکستان کے کوئی ایسے مدارس بھی ہیں جہاں اس طرح کے دہشت گردوں کو تربیتی کیمپ قائم ہیں ؟کیا کسی ایسے تربیتی کیمپ پر چھاپہ مار کر اس میں ملوث افراد کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا ہے جیسا کہ راولپنڈی کے نزدیک ایک غیر ملکی فرم کے تربیتی کیمپ پر چھاپہ مار کر اسے بند کروایا گیا؟ مزید برآں اب تک دینی مدارس کے کتنے طلبا ہیں جنہیں دہشت گردی کے جرم کے ثابت ہونے پر عدالتوں نے سزا سنائی؟اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں جو ذہنوں میں جنم لیتے ہیں ۔ قلم کی معمولی جنبش سے دینی مدارس کو دہشت گردی کا ’اصل سرچشمہ‘ قرار دیا جاسکتا ہے مگران سوالات کے اطمینان بخش جوابات دینے کی ذمہ داری پوری کرنا شاید اتنا آسان نہیں ہے؟ امریکیوں نے کئی برس سے سینکڑوں نوجوانوں کو گرفتار کرکے گوانتا نا موبے میں قید کررکھا ہے۔ مگر ہر شخص جانتا ہے کہ ان کی کثیر تعداد پر ابھی تک جرم ثابت نہیں کیا جاسکا ہے۔ |