ہو،دفترہو،ادارہ ہویاگھر ہواورقابیل کی طرح وہ اپنے ساتھی کو ترقی کرتا دیکھ کر احساس ناکامی و نامرادی میں گھر کر اُسے نقصان پہنچانے کے درپے ہوجاتے ہیں ۔ برادرانِ یوسف کا یوسف علیہ السلام سے حسد تاریخ سے حسد کی ایک اور بڑی مثال برادرانِ یوسف کی ملتی ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام اپنی بہترین عادات،اعلیٰ کردار اور معصوم وبے مثال حُسن کی وجہ سے اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کی آنکھ کا تارا تھے۔ بھائیوں کو اپنے والد کی یوسف علیہ السلام سے بے پناہ محبت ناگوار گزرتی تھی اور انہوں نے یوسف علیہ السلام کے قتل کا ارادہ کیا جو بعد میں بڑے بھائی کے مشورے پر بدل دیا اور انہوں نے یوسف علیہ السلام کو کنویں میں پھینکنے پر اکتفا کیا۔ سورہ یوسف میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں : ﴿اُقْتُلُوْا یُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْہُ اَرْضًا یَّخْلُ لَکُمْ وَجْہُ اَبِیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا مِنْ بَعْدِہٖ قَوْمًا صٰلحِیْنَ﴾ (یوسف:۹) ’’مار ڈالو یوسف کو یا کہیں پھینک آؤ تا کہ تمہارے باپ کی توجہ تمہاری طرف ہو یوسف کے بعد تم لوگ اچھے رہو گے۔‘‘ مگر اس سب کے باوجود نہ تو وہ والد کی آنکھ کا تارا بن سکے نہ یوسف علیہ السلام کے مقام کو پہنچ سکے۔ ان کا کچھ نہ بگاڑسکے بلکہ اللہ نے انہی اسباب سے یوسف علیہ السلام کو پیغمبری اور بادشاہی سے سرفراز کیا۔ یہود و نصاریٰ کا اسلام اور اہل اِسلام سے حسد یہود ونصاریٰ اسلام،اہل اسلام،نبی معظم اور قرآن سے دلی طور پر بغض وحسد رکھتے ہیں اور ان کا یہ خبث باطن اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کئی جگہ بیان فرمایا ہے۔ علمائے یہود منتظر تھے کہ آخری نبی ہم میں یعنی بنی اسحق میں مبعوث ہوگا۔ مگرجب اللہ نے اپنی حکمت بالغہ کے تحت آخری نبی بنی اسماعیل میں مبعوث فرمایا تو یہود بنی اِسماعیل کی برتری برداشت نہ کرسکے۔ وہ اپنی سرداری اور برتری کے زعم میں مبتلا تھے، لہٰذا نبی مرسل صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی بجائے حسد کرنے لگے۔ قرآن اس کیفیت کو یوں بیان کرتا ہے۔ ﴿وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَیْکُمُ الَانَامِلَ مِنَ الْغَیْظِ قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِکُمْ﴾(آل عمران:۱۱۹) |