دشمن کو ملنے والی نعمت یابھلائی اُسے بری لگتی ہے اور وہ اس کے ختم ہوجانے کی آرزو کرتا ہے اور یہی تو حسد ہے۔ گویا عداوت، کینہ اور حسد لازم و ملزوم ہیں اور جس نے حسد کی بیماری کا علاج کیا ہے اُسے عداوت اور بغض کا علاج بھی کرنا ہوگا، کیونکہ اگر اسباب باقی رہے تو بیماری کبھی بھی پلٹ کر حملہ آور ہوسکتی ہے۔حسد کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے اَسباب کا خاتمہ ضروری ہے۔ مثالیں :حسد ایک ایسی برائی ہے جو آغاز کائنات سے چلی آرہی ہے۔تاریخی مطالعہ سے ہمیں حسد کی کچھ مثالیں ملتی ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کیا ہے۔ 1.اِبلیس کا انسان سے حسد آسمان میں سب سے پہلا جو گناہ سرزد ہوا وہ حسد تھا، جو ابلیس نے سیدنا آدم علیہ السلام سے محسوس کیا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سمیت ابلیس کو آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو اس نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے کہا۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں : ﴿قَالَ اَنَا خَیْرٌمِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ﴾ (ص:۷۶) ’’کہا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیاہے اور اس کو مٹی سے تخلیق کیا ہے۔‘‘ اس نے سوچا کہ جو مقام سیدنا آدم علیہ السلام کو عطا کیا گیا ہے وہ اصل میں تو میرا حق تھا۔ میں اعلیٰ عنصر یعنی آگ سے تخلیق کیا گیا ہوں اور آدم علیہ السلام کو ادنیٰ عنصر یعنی مٹی سے بنایا گیا ہے تو تخلیقی اعتبار سے اور عبادت و ریاضت کے لحاظ سے میں اس مرتبہ کا حقدار تھا جس پر آدم علیہ السلام کو فائز کیا گیا ہے۔مجھ سے کمتر مخلوق کو مجھ پر برتری دی گئی ہے۔ اس نے تکبر بھی کیا اور احساس کمتری میں بھی مبتلا ہوا۔ لہٰذا حسد میں مبتلا ہوکر اس نے خالق بشر کو چیلنج کردیا کہ میں تیری اس مخلوق کو راہ راست سے بھٹکا کر رہوں گا جس صفت کی بنیاد پر آدم علیہ السلام کو مجھ پربرتری دی گئی ہے اس کی اُسی صفت کو میں تیری نافرمانی میں استعمال کرواؤں گا۔ سیدنا آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کے جرم میں اللہ نے ابلیس لعین کو جنت سے نکل جانے کا حکم دیا۔چنانچہ دنیا کے سب سے پہلے حاسد نے آدم علیہ السلام و بنی آدم کو اُسی جنت سے نکالنے کا ہدف طے کیا تھا اور آج تک وہ یکسوئی کے ساتھ اپنے ہدف کو حاصل کرنے میں مصروف عمل ہے۔ قرآن کریم میں کئی مقامات پر یہ واقعہ بیان کیاگیا ہے۔ آج جو بھی مبتلائے حسد ہے وہ اوّلین |