تُوفي فیہا ویزید بن معاویۃ علیہم بأرض الروم (صحیح بخاری:۱/۱۵۸) ’’پس میں نے یہ حدیث ایسے لوگوں کوبیان کی جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ابوایوب بھی تھے۔ اس غزوہ میں جن میں وہ وفات پاگئے اور یزید بن معاویہ ان پر امیر تھے۔‘‘ یہاں پر یہ بات قابل غور ہے کہ اسلم ابوعمران کی روایت میں بھی ابوایوب کی وفات کا ذکر ہے اور اس حدیث ِمحمود بن ربیع میں بھی ان کی وفات کا ذکر ہے۔عبدالرحمن بن خالد کی اِمارت والے غزوہ میں ان کی عدم واپسی اور مسلسل جہاد اور پھر وفات ثابت ہے اور اس حدیث میں بھی۔ لہٰذا یہ دونوں روایات ایک ہی غزوے یا واقعے کے متعلق ہیں ۔ اَب رہ گئی یہ بات کہ عبدالرحمن بن خالد بھی امیر ہیں اور یزید بن معاویہ بھی تو اس میں منافات نہیں بلکہ تطبیق ممکن ہے۔چونکہ یہ نہایت اہم غزوہ ہے، اس بنا پر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے بہت بڑا لشکر بھیجا تھا اور اہل مصر کی جماعت پر عقبہ بن عامر امیر تھے، اہل شام کی جماعت پر فضالہ بن عبید اور مدینہ سے آنیوالی جماعت پر عبدالرحمن بن خالد امیر تھے جبکہ تمام لوگوں پر یزید بن معاویہ امیرتھے۔ اس تطبیق سے اس اشکال کا حل بھی نکل آتا ہے کہ جامع ترمذی کی روایت میں وعلی الجماعۃ فضالۃ بن عبید ’’جماعت پر فضالہ بن عبید امیر تھے۔‘‘ کے الفاظ آئے ہیں اور دامانوی صاحب یا ان کے اُستاذ صاحب نے ان الفاظ کو وہم قرار دیاہے، کیونکہ وعلی الجماعۃ فضالۃ بن عبید اور وعلی أھل الشام فضالۃ بن عبید میں کوئی فرق نہیں ہے،کیونکہ الجماعۃ سے مراد اہل شام ہی کی جماعت ہے اور عبدالرحمن بن خالد بھی الجماعۃ پر امیر تھے، لیکن وہ الجماعۃ جو مدینہ سے نکلی تھی جیسا کہ اسلم ابوعمران کے الفاظ اس کی تائید کرتے ہیں ۔ غزونا من المدینۃ نرید القسطنطینیۃ سے پتہ چلا کہ ہم مدینہ سے جہاد کے لیے قسطنطنیہ کی طرف روانہ ہوئے اور الجماعۃ پر عبدالرحمن بن خالد امیر تھے، یعنی وہ جماعت جو مدینہ سے نکلی تھی۔ یہی بات دکتور صلابی نے اپنی کتاب میں لکھی ہے: ’’یعنی الجماعۃ الذین غزوا من المدینۃ یعنی وہ جماعت جو مدینے سے جہاد کے لیے نکلی تھی، جبکہ قائد ِعام یزید بن معاویہ ہی تھے۔‘‘ (الدولۃ الأمویۃ:۲/۳۶) |