پھر اسی روایت سے نتیجہ اَخذ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’اس روایت سے واضح ہورہا ہے کہ سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ ، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی قسطنطنیہ کے جہاد میں شریک ہوئے تھے اور پھر اس جہاد میں حصہ لے کر وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ واپس بھی آگئے۔‘‘ (ص۶۲) حالانکہ نہ تو اس روایت سے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ جانا اور آنا ثابت ہوتا ہے اورنہ ہی معاویہ رضی اللہ عنہ کا جانا ثابت ہوتا ہے بلکہ اس سے تویہ ثابت ہورہا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نہیں گئے تھے اور ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ ارضِ روم میں جہاد کرنے کے لیے گئے تھے۔ جاتے وقت بھی مستقر معاویہ میں وہ معاویہ رضی اللہ عنہ سے ملے اور واپسی پر بھی۔ 8.اور حملہ یہاں پر بھی ارضِ روم پر ہے، قسطنطنیہ کا ذکر ہی نہیں ۔ اس وقت سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی زندہ تھے اور اسی بے رخی کی وجہ سے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے بصرہ پر مقرر کردہ عامل عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جاملے تھے۔ 9.دامانوی صاحب قسطنطنیہ پر چوتھا حملہ سیدنا عبدالرحمن بن خالد بن الولید کے زیرامارت ہونا بیان کرتے ہوئے اس کے تحت سنن ابو داؤد کی اسلم ابوعمران والی روایت ذکر کرتے ہیں ، جس میں ہے : ’’وعلی الجماعۃ عبد الرحمٰن بن خالد بن الولید‘‘ ’’جماعت پر عبدالرحمن بن خالد بن الولید امیر تھے۔‘‘ اسی روایت میں ابوعمران یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ’’فلم یَزل أبو أیوب یجاھد في سبیل اﷲ حتی دُفن بالقسطنطینیۃ ‘‘ ’’پس ابوایوب مسلسل (بغیر کسی انقطاع کے) اللہ کے راستے میں جہاد کرتے رہے یہاں تک قسطنطنیہ میں دفن ہوئے۔‘‘ اس روایت سے یہ پتہ چل رہا ہے کہ عبدالرحمن بن خالد جب جماعت پرامیر تھے، یہ غزوہ جاری رہا اور ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ اس میں وفات پاگئے۔ جبکہ صحیح بخاری کی محمود بن ربیع والی روایت کے الفاظ یہ ہیں : فحدثتھا قومًا فیھم أبو أیوب صاحب رسول اﷲ ! في غزوتہ التي |