قسطنطینیۃ وأمیرھا معاویۃ‘‘ (تاریخ اسلام از ذہبی، عہد خلفائے راشدین،ص۳۷۱) ’’اس سن میں مضیق کا واقعہ ہوا جو کہ قسطنطنیہ کے قریب ہے اور اس کے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تھے،لہٰذا یہ حملہ بھی قسطنطنیہ پر ہی تھا۔‘‘ (محدث،ص۵۹،۶۰) واضح رہے کہ حافظ ذہبی کے اس کلام میں اپنی طرف سے ان الفاظ کی پیوند کاری کی گئی ہے:’’ لہٰذا یہ حملہ بھی قسطنطنیہ پر ہی تھا۔‘‘ اس استدلال میں اہل بدعت کے طرزِ استدلال سے مشابہت نمایاں ہے۔کیا یہ حضرات بتا سکتے ہیں کہ مضیق قسطنطنیہ (جہاں پر حملہ ہوا تھا) کے درمیان اور قسطنطنیہ کے درمیان کتنا فاصلہ ہے۔ مضیق قسطنطنیہ اور قسطنطنیہ دو الگ الگ مقامات ہیں اور ایک پر حملہ سے دوسرے پرحملہ لازم نہیں آتا۔ 5. آگے چل کر دامانوی صاحب لکھتے ہیں : سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا قسطنطنیہ پر دوسرا حملہ: اس کے تحت امام بخاری کی تاریخ صغیر و تاریخ کبیر سے ایک روایت ذکر کرتے ہیں ۔ جسے ہم ا ن کے ترجمے کے ساتھ نقل کرتے ہیں : ’’حدثنا عبد اﷲ بن صالح حدثني معاویۃ عن عبد الرحمن بن جبیر بن نفیر عن أبیہ عن أبي ثعلبۃ الخشني قال سمعتُہٗ في خلافۃ معاویۃ بالقسطنطینیۃ وکان معاویۃ غزا الناس بالقسطنطینیۃ: إن اﷲ لا یعجز ھذہ الأمۃ من نصف یوم۔‘‘ ’’سیدنا ثعلبہ خشنی بیان کرتے ہیں کہ میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان کے دورِ خلافت میں قسطنطنیہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا جبکہ وہ لوگوں کو قسطنطنیہ پرچڑھائی کے لیے روانہ کررہے تھے کہ بے شک اللہ تعالیٰ اس اُمت کو آدھے دن کے بقدر بھی عاجز نہیں کرے گا۔‘‘ (محدث،ص۶۰) ایک مبتدی طالب علم جس نے کسی مدرسے میں باقاعدہ ماہرین فن سے پڑھا ہو، اگر وہ بھی اس عبارت پر غورکرے گاتو مترجم کی کوتاہی اور قواعد ِفن سے بے خبری اس پر واضح ہوجائے گی۔درحقیقت جبیر بن نفیر، یہ بات ابوثعلبہ خشنی کے بارے میں بیان کررہے ہیں ۔ یعنی وہ کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ کی خلافت کے زمانے میں ابوثعلبہ خشنی سے قسطنطنیہ میں سنا اور معاویہ نے لوگوں کو قسطنطنیہ پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا تھا… |