’’منکرین حدیث میں سے محمود احمد عباسی اور اس کے ہم نوا ناصبی حضرات نے اس حدیث کا مصداق یزید بن معاویہ کو قرار دیا ہے۔‘‘ (محدث،ص۴۹) دامانوی صاحب کی یہ بات درست نہیں ہے بلکہ محمود احمد عباسی سے بہت پہلے مہلب بن احمد،شیخ الاسلا م ابن تیمیہ، حافظ ابن کثیر،حافظ ابن حجر اور علامہ قسطلانی رحمہم اللہوغیرہ نے بھی اس حدیث کا مصداق یزید بن معاویہ کو قرار دیا ہے۔جیسا کہ اس کا اعتراف خود دامانوی صاحب نے مطبوعہ مضمون کے صفحہ نمبر۵۴،۵۵ پر بھی کیا ہے۔ 2.آگے چل کر دامانوی صاحب لکھتے ہیں :’’قسطنطنیہ پرپہلا حملہ سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ نے کیا تھا۔‘‘ اور دلیل کے طورپر حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں ۔ ’’اور ۳۲ ہجری میں سیدنا معاویہ نے بلادِ روم پر چڑھائی کی،یہاں تک کہ وہ خلیج قسطنطنیہ تک پہنچ گئے۔‘‘ (البدایۃ والنھایۃ:۷/۱۵۹،محدث،ص۵۹) پہلی بات تو یہ ہے کہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کی یہ بات بلاسند ہے اور دامانوی صاحب کے بقول ’’بے سند روایت کا وجود اور عدم برابر ہے۔‘‘ دوسری بات یہ ہے کہ یہاں پر دعویٰ خاص ہے اور دلیل عام۔ یعنی دعویٰ قسطنطنیہ پرحملہ اور دلیل میں بلادِ روم پر چڑھائی کا ذکر کیاگیاہے۔ چنانچہ ذکر ِعام سے خاص کا ثبوت کیسے ہوتا ہے؟ 3.پھر حافظ زبیر علی زئی کے حوالے سے جناب دامانوی لکھتے ہیں کہ’’ یہ حملہ ۳۲ ھ بمطابق ۶۵۲ء، ۶۵۳ء میں ہوا تھا۔‘‘ اور دلیل میں بے سند، منقطع اور ناقابل حجت تاریخی روایات ذکر کرتے ہیں جو اِن کے اپنے فیصلے کے مطابق بھی دلیل نہیں بن سکتیں ۔دلیل کی قوت کا تو یہ حال ہے،لیکن اس دلیل کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ’’ صرف اس ایک دلیل سے ہی روزِ روشن کی طرح ثابت ہوتا ہے کہ اوّل جیش والی حدیث مبارکہ تو یزید پر فٹ کرنا صحیح نہیں ہے۔‘‘ لیکن دلیل کیسی ہے:بے سند اور منقطع تاریخی روایت جو کہ مدعا پر واضح بھی نہیں ۔ 4.مزید لکھتے ہیں : ’’یہ حملہ قسطنطنیہ پر مضیق القسطنطینیۃ کی طرف سے ہوا تھا،یہ مقام اس شہر سے قریب ہے۔‘‘جیسا کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :’’فیہا کانت وقعۃ المضیق بالقرب من |