کی پابندی ہوتی ہے بلکہ اختیار دہندہ پابند ہوتا ہے، قطع نظر اس بات کے کہ وہ خریدار ہے یا فروخت کنندہ۔ اس کے علاوہ بھی کئی لحاظ سے ان میں فرق ہے ۔مثلاً بیعانہ میں چیز کا حصول پیش نظر ہوتا ہے جبکہ اختیارات میں چیز کے حصول کی بجائے قیمتوں میں واقع فرق کا لین دین کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اختیارات کی باقاعدہ خریدو فروخت ہوتی ہے، لیکن بیعانہ میں ایسا نہیں ہے۔ لہٰذا آپشن فیس کو بیعانہ پر قیاس کر نا درست نہیں ۔ دوسرا شبہ: عقد ِاختیار حقیقت میں خرید وفروخت کا وعدہ ہے جو ایک نیکی ہے اور آپشن فیس کے نام پر دی گئی رقم اس نیکی کا صلہ ہے ۔ یہ توجیہ بھی غلط فہمی پر مبنی ہے۔نہ تو خرید وفروخت کے وعدے کونیکی قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اختیارکو وعدہ قرار دینے کی کوئی گنجائش موجود ہے ،کیونکہ اس کی باقاعدہ فیس لی جاتی ہے جس سے یہ عقد معاوضہ کے زمرہ میں داخل ہو جاتا ہے ۔ تیسرا شبہ: اختیارات اور خیارِ شرط باہم ملتے جلتے ہیں ۔ خیارِ شرط جائز ہے، اس لیے یہ بھی جائز ہو نا چاہیے ۔ یہ بات بھی صحیح نہیں کہ اختیارات کا لین دین خیارِشرط کے مشابہ ہے۔ خیارِ شرط کا معاوضہ لیاجاتا ہے اور نہ ہی اس کے لیے عقد ِبیع سے الگ کوئی عقد/معاہدہ ہوتا ہے جب کہ اختیار دینے کا معاوضہ وصول کیاجاتا ہے اور اس کے لیے علیحدہ عقد بھی طے پاتا ہے۔لہٰذا اس کو خیارِ شرط کے مشابہ قرار دینا بعید ازقیاس ہے اور اگر اسے خیارِشرط پر قیاس کر بھی لیا جائے تب بھی یہ جائز نہیں بنتا ،کیونکہ خیارِ شرط کا معاوضہ جائز نہیں ۔ حاصل کلام یہ کہ سرمایہ دارانہ معیشت میں رائج اختیارات کالین دین حرام ہے ان کو بیعانے اور خیارِ شرط پر قیاس کرنا قیاسِ باطل ہے ۔ ہذا ما عندی واﷲ اعلم بالصواب |