Maktaba Wahhabi

44 - 79
نے جائز قرار دیا ہے۔جب کوئی کاروباری معاملہ اس طرح طے پائے کہ کچھ رقم پیشگی اَدا کر کے یہ کہا جائے کہ اگر میں نے یہ چیز خرید لی تو یہ رقم قیمت کا حصہ شمار ہوگی اور اگر نہ خریدی تو یہ آپ کی ملکیت ہو گی تو اس کو ’بیعانہ کی بیع ‘(بیعُ الْعُرْبُوْن)کہا جاتاہے ۔ چنانچہ سنن ابن ماجہ میں بیعانہ کی تعریف یوں کی گئی ہے: ’’العربان أن یشتري الرجل دابۃ بمائۃ دینار فیعطیہ دینارین عربونًا فیقول: إن لم أشتر الدابۃ فالدیناران لک‘‘ (رقم الحدیث:۲۲۱۱) ’’بیعانہ یہ ہے کہ آدمی (مثلاً)سو دینار کا جانور خریدے اور دو دینار بیعانہ کے طور پر دے کر یہ کہے کہ اگر میں نے یہ جانور نہ لیا تو یہ دو دینار تمہارے ہوں گے۔‘‘ امام نووی رحمہ اللہ بیعانہ کی تشریح میں رقمطراز ہیں : ’’وہو أن یشتري شیئًا ویعطي البائع درہمًا أو دراہم ویقول: إن تم البیع بیننا فہو من الثمن وإلا فہو ہبۃ لک‘‘ (المجموع :۹/۳۳۵) ’’بیعانہ یہ ہے کہ آدمی کوئی چیز خریدے اور فروخت کنندہ کو ایک یاکچھ درہم دے کر یہ کہے کہ اگر ہمارے درمیان بیع مکمل ہو گئی تو یہ رقم قیمت کاحصہ شمار ہوگی، بصورتِ دیگریہ آپ کے لیے ہبہ ہو گی۔‘‘ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’والعربون في البیع ہو أن یشتري السلعۃ فیدفع إلی البائع درہمًا أو غیرہ علی أنہ إن أخذ السلعۃ احتسب بہ من الثمن وإن لم یأخذہا فذٰلک للبائع‘‘ (المغنی:۴/۳۱۲) ’’بیع میں بیعانہ کی صورت یہ ہوتی ہے کہ انسان کوئی سامان خریدے، فروخت کنندہ کو اس شرط پر درہم وغیرہ دے کہ اگر اس نے سامان لے لیا تو یہ رقم قیمت سے وضع کر لی جائے گی اور اگر نہ لیا تو یہ رقم فروخت کنندہ کی ہو گی۔‘‘ بیعانہ کی مذکورہ بالا تعریفات سے دو باتیں سامنے آتی ہیں : 1.خریداری کی صورت میں بیعانہ کی رقم قیمت کا حصہ بن جاتی ہے ۔ 2.بیعانہ میں صرف مشتری کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ چیز خریدے یا نہ خریدے،فروخت کنندہ بیچنے کا پابند ہوتا ہے ۔ لیکن اختیارات کا معاملہ اس کے برعکس ہے ۔یہاں نہ توآپشن فیس قیمت کا حصہ بنتی ہے اور نہ ہی فروخت کنندہ پر بیچنے
Flag Counter