مزیدیہ کہ اختیارات کا لین دین ایک ایسا عمل ہے جو غرر اور سٹہ بازی جیسی قباحتوں پر مشتمل ہے۔غرر اس طرح کہ اختیار کے استعمال کی نوبت آئے گی یا نہیں ؟اس کاعلم نہ تو خود اختیار کے خریدار کو ہوتا ہے اور نہ ہی فروخت کنندہ کو۔کیونکہ اس کا انحصار اس پر ہے کہ خریدار کی توقع کے مطابق قیمتوں میں کمی بیشی ہو تی ہے یا نہیں ؟ اگر اس نے خریداری اختیار لیا ہو اور قیمتیں بڑھ جائیں تو وہ بیع کرے گا، ورنہ نہیں ۔اسی طرح اگر اس نے بیچنے کا اختیار لے رکھا ہو تو صرف قیمت کم ہونے کی صورت میں اختیار دہندہ کو فروخت کرے گا، اضافے کی صورت میں کسی دوسرے کو بیچ دے گا۔چونکہ قیمتوں میں کمی بیشی غیر یقینی امر ہے ،اس لیے بیع کا انعقاد مبہم ہے اور یہی غرر ہے جس کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔ سٹہ بازی اس طرح کہ اس سارے معاملے میں خرید وفروخت کی نیت قطعاً نہیں ہوتی بلکہ نیت صرف یہ ہوتی ہے کہ اگر فلاں تاریخ تک شیئرز کی قیمت بڑھ گئی تو اختیار دہندہ سے اتنے فیصد اضافہ وصول کر لیا جائے گا اور اگر کم ہوگئی تو اس کو اتنے فیصد اضافہ دے دیا جائے گا۔ یااگر قیمتیں کم ہو گئیں تو اتنے فیصد اضافہ وصول اور اگر بڑھ گئیں تو ادا کر دیا جائے گا۔گویا یہ قسمت لڑانے کا کھیل ہے جسے جوا کہا جاتا ہے ۔یہی جوا شیئرز اور کرنسی کی جگہ دیگر اَجناس کی بنیاد پر بھی کھیلا جاتا ہے ۔ اگر آپشن اوپن ہو تو درج بالا خرابیوں کے ساتھ غیر ملکیتی چیز کاسوداکرنے کی خرابی بھی شامل ہوجاتی ہے۔ بعض شبہات کا ازالہ پہلا شبہ: علمائے دین بیعانہ کو جائز قرار دیتے ہیں ۔آپشن فیس بیعانہ کے مشابہ ہے کہ جس طرح بیعانہ دینے والاچیز نہ خرید سکے تو بیعانہ ضبط ہوجاتا ہے، اسی طرح اگر اختیار لینے والا چیز نہ خرید ے توآپشن فیس ضبط ہو جاتی ہے۔ مزید یہ کہ جس طرح بیعانہ میں مشتری کو مقررہ تاریخ تک چیز خریدنے کا حق ہوتا ہے، اسی طرح اختیار میں بھی مشتری کو متعین تاریخ تک خریداری کا حق ہوتا ہے ، لہٰذا بیعانہ کی طرح یہ بھی جائز ہے ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے بیعانہ کے بارے میں جاننا ضروری ہے، جسے علمائے دین |