Maktaba Wahhabi

42 - 79
مقصد خرید وفروخت کے ذریعے قیمتوں کی کمی سے فائدہ اٹھاناہے ۔مثلاً’الف ‘ ’ب‘ کوایک سو روپیہ آپشن فیس ادا کر کے ایک مہینے تک کسی کمپنی کے ایک سو شیئرز پچاس روپے فی شیئرز کے حساب سے فروخت کرنے کا اختیار خرید لیتا ہے۔اب اگر اس عرصہ میں شیئر کی قیمت گر گئی تو ’الف‘ وہ شیئرز طے شدہ قیمت پر ’ب‘ کو فروخت کر دے گا،لیکن اگر قیمت میں اضافہ ہو گیا تو ’ب‘ کو بیچنے کی بجائے مارکیٹ میں فروخت کرنے کو ترجیح دے گا ۔اس صورت میں اگرچہ اس کی آپشن فیس رائیگاں جائے گی، تاہم اسے دوسری طرف سے فائدہ ہو جائے گا۔ فروختنی اختیار کا دوسرا مقصد مستقبل میں ممکنہ نقصان سے پیشگی تحفظ ہے ۔مثلاً ’الف ‘کے پاس ایک امریکی ڈالر ہے جس کی حالیہ قیمت اَسّی روپے ہے ۔’الف ‘ اس کشمکش میں ہے کہ وہ یہ ڈالر اپنے پاس رکھے یا ابھی فروخت کردے،کیونکہ اگر وہ اپنے پاس رکھتا ہے تو اس کی قیمت گرنے کا احتمال ہے۔ اور اگر ابھی فروخت کرتا ہے تو ممکن ہے، آئندہ اس کی قیمت بڑھ جائے اور یہ نفع سے محروم رہے ۔لہٰذا’الف‘ ’ب‘ کو آپشن فیس ادا کر کے ایک مہینے تک اسی روپے میں ڈالر بیچنے کا اختیار خرید لیتا ہے۔اب اگر مقررہ تاریخ تک ڈالر کی قیمت بڑھ گئی تو وہ کسی دوسرے کو فروخت کر دے گا ،اور اگر کم ہو گئی تو اسی روپے میں ’ب‘ کو فروخت کر دے گا۔ گویا ’الف‘یہ اختیار حاصل کر کے ڈالر کی قیمت گرنے سے مطمئن ہو گیا ہے ۔ اختیار ات کی خرید وفروخت کا شرعی حکم مذکورہ بالاتفصیلات یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت میں رائج اختیار ات اورشریعت کے تصور ِاختیار کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ۔اختیار کاشرعی مفہوم تو صرف اتنا ہے کہ بیع باقی رکھنے یا فسخ کرنے میں سے جو صورت بہتر معلوم ہو، اس کا انتخاب کر لیا جائے۔اس کی نہ توکوئی فیس مقرر ہوتی ہے اور نہ ہی یہ حق کسی دوسرے کوفروخت کیا جاسکتا ہے، جبکہ زیربحث اختیارکسی چیز کو خریدنے یا بیچنے کا محض ایک حق ہے جو نہ تومال ہے اورنہ ہی کسی چیز کا حق استعمال، نیز یہ ایسامالی حق بھی نہیں جس کا معاوضہ لیا جاسکے، لہٰذا اس کی خرید وفروخت حرام ہے۔
Flag Counter