داری کی بنیاد پر ہے ۔‘‘ یعنی اس عرصہ میں چونکہ غلام کا ذمہ دار مشتری تھا، اگر وہ کسی وجہ سے ہلاک ہو جاتا تومشتری کا ہی نقصان ہوتا، اس لیے اجرت بھی اسی کا حق ہے ۔ (viخیار بصورتِ اختلاف: جب معاملہ طے پانے کے بعد فروخت کنندہ اور مشتری کے درمیان قیمت وغیرہ میں اختلاف پیدا ہو جائے ،مثلاً فروخت کنندہ کہے کہ میں نے اس کی قیمت ایک ہزار بتائی تھی اور خریدار کہے کہ نو سو میں سوداطے ہوا تھا اور دونوں میں سے کسی کے پاس دلیل یا گواہ موجودنہ ہو تو فروخت کنندہ کی بات معتبر سمجھی جائے گی اورخریدار کو اختیار ہو گا کہ وہ بیع باقی رکھے یا فسخ کر دے ۔ ((إذا اختلف البیعان ولیس بینہما بینۃ فہو ما یقول ربّ السلعۃ أو یتتارکان)) (سنن ابی داؤد:۳۵۱۱) ’’جب فروخت کنندہ اور خریدار کا اختلاف ہو جائے اور دونوں میں سے کسی کے پاس دلیل نہ ہو توفروخت کنندہ کی بات معتبر ہوگی یا پھر دونوں بیع ختم کر دیں ۔‘‘ سنن ابن ماجہ میں ہے : أن عبد اﷲ بن مسعود باع من الأشعث بن قیس رقیقًا من رقیق الإمارۃ فاختلفا في الثمن فقال ابن مسعود: بعتک بعشرین ألفًا وقال الأشعث بن قیس: إنما اشتریت منک بعشرۃ آلاف فقال عبد اﷲ: إن شئتَ حدثتک بحدیثٍ سمعتہ من رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ فقال: ہاتہ قال: فإني سمعت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یقول:((إذا اختلف البیعان ولیس بینہما بینۃ والبیع قائم بعینہ فالقول ما قال البائع أو یترادان قال: فإني أرٰی أن أردّ البیع فردہ)) (رقم الحدیث:۲۲۰۶) ’’حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اشعث بن قیس کو سرکاری غلاموں میں سے ایک غلام فروخت کیا۔ پھر دونوں کا قیمت کے متعلق اختلاف ہو گیا،حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے تھے: میں نے تجھے بیس ہزار میں بیچا ہے جب کہ اشعث بن قیس کا دعویٰ تھا کہ میں نے آپ سے صرف دس ہزار میں خریدا ہے۔اس پر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا اگر آپ چاہیں تو میں آپ سے |