Maktaba Wahhabi

36 - 79
گئی ہے، لہٰذا ایسی صورت میں مالکیہ کے قول پر عمل کرتے ہوئے مغبون کو اختیار دیا جائے گا، کیونکہ دھوکہ اسی شخص کے کہنے کی بنا پر ہوا ہے۔ ویسے ہی دھوکہ لگ گیاتو بات دوسری ہے، لیکن جب اس نے کہا کہ بازار میں یہ دام ہے اور بعد میں بازار میں وہ دام نہیں نکلے تویہ دھوکہ اس کے کہنے کی وجہ سے ہوا لہٰذا دوسرے فریق کو اختیارہے، فتوی بھی اسی کے اوپر ہے۔‘‘ (انعام الباری :۶/۲۲۸) دوسری جگہ لکھتے ہیں : ’’حنفیہ کے پاس اس حدیث کا کوئی جواب نہیں ہے۔لہٰذا اس باب میں ائمہ ثلاثہ کامسلک راجح ہے ۔‘‘ (ایضاً:ص۳۰۴) (vخیارِ عیب:اگرچیز خریدنے کے بعداس میں کسی ایسے نقص کاانکشاف ہو جو فروخت کنندہ کے ہاں سے ہی موجود تھا،لیکن بیع کے وقت خریدار کے علم میں نہ آ سکا تو خریدار کو بیع منسوخ کرکے اپنی رقم واپس لینے کااختیار ہے ،اس کو ’خیارِ عیب‘ کہتے ہیں ۔ نقص سے مراد ایسا عیب ہے جس سے قیمت میں کمی واقع ہو۔ مشتری رضامندہوتو خیارِ عیب میں تصفیہ کی ایک شکل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس چیز کی نقص کے ساتھ اوربغیرنقص کے قیمت لگائی لی جائے اور دونوں قیمتوں میں جو فرق ہو، وہ رقم مشتری کو واپس کردی جائے اور بیع کو قائم رکھا جائے ۔ خیارِ عیب کی غرض وغایت مشتری کو ضرر سے بچاناہے،کیونکہ وہ چیز کو بے عیب سمجھ کر خریدنے پر رضامند ہوا تھا،نقص کی موجودگی اس کی رضامندی کے خلاف ہے،اس لیے علمائے دین کے مابین اس کی مشروعیت متفق علیہ ہے ۔اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہے : أنَّ رجلا اشترٰی عبدًا فاستغلَّہ ثم وجد بہ عیبًا فرَدَّہ فقال:یا رسول اﷲ ! إنہ قد استغل غلامي۔ فقال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم : ((الخراج بالضمان)) (سنن ابن ماجہ:۲۲۶۲) ’’ایک شخص نے ایک غلام خریدا ،پھر اس سے (اُجرت کے بدلے کام پر لگا کر )فائدہ اٹھایا، بعد میں اس میں عیب پایا اور اسے واپس کر دیا۔اس پر فروخت کنندہ نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس نے میرے غلام سے فائدہ بھی تو اُٹھایا ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فائدہ نقصان کی ذمہ
Flag Counter