Maktaba Wahhabi

35 - 79
عہد ِنبوت میں مدینہ منورہ میں غلہ وغیرہ دوسرے شہروں سے لاکر ہی فروخت کیا جاتاتھا، بعض چالاک تاجر منڈی سے باہر جاکر ہی تجارتی قافلوں سے سارا مال خرید لیتے تھے ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر پابندی لگا دی،کیونکہ اس میں یہ اندیشہ بھی تھا کہ تاجر قافلے والوں کی ناواقفیت سے فائدہ اُٹھا کر سستے داموں نہ خرید لیں اوراگر کوئی مالک تاجرپر اعتماد کر کے اپنا مال فروخت کر دے اور وہ منڈی میں پہنچ کر یہ محسوس کرے کہ تاجرنے جو قیمت دی ہے، وہ صحیح نہیں اور حقیقی قیمت یہ ہے تواس کو یہ اختیار ہوگاکہ چاہے تو بیع باقی رکھے اور چاہے تو منسوخ کر دے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے: ((لا تلقوا الجلب فمن تلقاہ فاشترٰی منہ فإذا أتی سیدہ السوق فہو بالخیار)) ( صحیح مسلم :۱۵۱۹) ’’قافلے والوں سے آگے جا کر نہ ملو۔جس نے آگے جا کر مال خرید لیاتو جب مال کا مالک بازار پہنچے تو اس کو (معاملہ فسخ کرنے کا) اختیار ہوگا ۔‘‘ علمائے احناف خیارِ غبن کے قائل نہیں ، وہ کہتے ہیں جو شخص بازار میں جائے، اس کا فرض ہے کہ مارکیٹ کا ریٹ معلوم کر کے علیٰ وجہ البصیرۃبیع کرے۔ اگر اس نے مارکیٹ ریٹ معلوم کئے بغیر بیع کرلی اور بعد میں معلوم ہوا کہ اس کو دھوکہ لگا ہے تو اس کا ذمہ دار وہ خود ہے اور اس کو بیع فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ یہ رائے متذکرہ بالا حدیث کے خلاف ہے ۔خود حنفی علما بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ حدیث خیارِ غبن کی مضبوط ترین دلیل ہے،ہمارے پاس اس کا کوئی اِطمینان بخش جواب نہیں ہے۔چنانچہ معروف حنفی عالم مولانا تقی عثمانی اس کی تشریح میں لکھتے ہیں : ’’یہ حدیث صحیح ہے اوراس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیہاتی (مال لانے والے )کو جو اختیار دیایہ خیارِ مغبون کے سوا اور کچھ نہیں ۔اس حدیث کا کوئی اطمینان بخش جواب شافعیہ اور حنفیہ کے پاس نہیں ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ متاخرین حنفیہ نے اس مسئلہ میں امام مالک رحمہ اللہ کے قول پر فتویٰ دیا۔ علامہ ابن عابدین(شامی) ردّ المحتار میں فرماتے ہیں کہ آج کل دھوکہ بازی بہت عام ہو
Flag Counter