Maktaba Wahhabi

34 - 79
علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’بیع کی جن اقسام میں وقوعِ بیع کے جگہ پر ہی قبضہ شرط ہے جیسے بیع صرف (کرنسی کی خرید وفروخت )،بیع سلم اور ان اَجناس کی باہم بیع ہے جن کا کمی بیشی کے ساتھ باہمی تبادلہ سود ہے ان میں خیار شرط نہیں ہے،کیونکہ ان کا مطلب ہے کہ فریقین کے جدا ہونے کے بعد ان کے درمیان کوئی تعلق باقی نہ رہے جب کہ خیارِ شرط کاتقاضا یہ ہے کہ ان کے درمیان (خیار کی مدت تک )تعلق باقی رہے گا۔‘‘ (المغني :۷/۴۸۸) iii)خیارِ تدلیس:مشتری کو اندھیرے میں رکھ کرکوئی چیز فروخت کی جائے تو اسے تدلیس کہا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں شریعت مشتری کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ حقیقت ِحال واضح ہونے پر بیع فسخ کر سکتا ہے۔ تدلیس کی یہ صورت توزمانہ قدیم سے چلی آرہی ہے کہ بعض بیوپاری دودھ دینے والے جانور کو منڈی میں لے جانے سے قبل کچھ وقت کے لیے اس کا دودھ نہیں دوہتے تا کہ خریدار کو تھن بھرے نظر آئیں اوروہ یہ سمجھے کہ اچھی مقدار میں دودھ دینے والا جانور ہے، لیکن جب وہ جانور کو گھر لے جا کر دودھ دوہتا ہے توپتہ چلتاہے کہ دودھ کی حقیقی مقدار بہت کم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حربے کو ممنوع قرار دیا اور فرمایا: جس نے ایسا جانور خریدلیا،اس کو دو باتوں میں اختیار ہے۔اگر اپنے سودے پر مطمئن ہے تو اسے باقی رکھے اور اگر مطمئن نہیں تو اس کوفسخ کر دے یعنی جانور واپس کرکے اپنی رقم لے لے اور دودھ کے بدلے ایک صاع کھجور دے۔ (صحیح بخاری :۲۱۵۱) بعض لوگ حادثہ شدہ گاڑیوں کو مرمت کر کے غیر حادثہ شدہ کا تاثر دے کر فروخت کر دیتے ہیں ۔ یہ بھی تدلیس کی ایک شکل ہے جو حرام ہے ۔ iv)خیارِ غبن: غبن کا معنی ہے ’دھوکہ دہی اورکمی کرنا‘جب کسی شخص سے دھوکہ دہی یا اس کی نا واقفیت اور اعتماد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی چیز مارکیٹ کی نسبت بہت زیادہ سستی خرید لی جائے یا معمول سے زیادہ مہنگی بیچ دی جائے تو اس کو اصطلاح میں ’غبن‘ کہتے ہیں جوکہ حرام ہے ۔
Flag Counter