Maktaba Wahhabi

33 - 79
مجھے اتنی مدت تک بیع فسخ کرنے کا اختیار ہو گا اور دوسرا فریق بھی اس پرراضی ہو تو اس کو خیارِ شرط کہتے ہیں ۔یہ جائز ہے اس کی دلیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے : ((المسلمون علی شروطہم)) (سنن ابی داؤد: ۳۵۹۴) ’’مسلمان اپنی شرائط کے پابند ہیں ۔‘‘ تاہم اس کو سود کا ذریعہ بنانا جائز نہیں ، لہٰذا اگر قرض دہندہ قرض پر اِضافی رقم لینے کی بجائے قرض لینے والے کی کوئی جائیداد خریدلے اور یہ طے کر لے کہ مجھے اتنی مدت تک بیع فسخ کرنے کا اختیار ہو گاتاکہ دورانِ مدت اس جائیداد سے فائدہ اُٹھاسکے اور جب مدت پوری ہو تو خیارِ شرط کے تحت بیع فسخ کر دے تویہ جائز نہیں ہوگا،کیونکہ یہ سودی حیلہ ہے ۔چنانچہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا گیا : ’’ایک شخص دوسرے سے کوئی چیز مثلاً زمین خریدتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ آپ کو فلاں مدت تک بیع فسخ کرنے کا اختیار ہے، تو اُنہوں نے فرمایا:جائزہے بشرطیکہ حیلہ مقصود نہ ہو۔حیلہ سے مراد یہ ہے کہ وہ قرض لینے والے سے کوئی جائیداد خریدکر اس سے فائدہ اُٹھائے اور اس میں خیار کی شرط طے کرلے تا کہ اس حیلے کے ذریعے قرض کے بدلے فائدہ حاصل کرے ۔‘‘ (المُغني:۷/۴۸۶) ٭ مزید برآں بیع کی وہ اَقسام جن میں فروخت کی گئی چیز اور اس کے معاوضہ پروقوعِ بیع کے مقام پر ہی قبضہ شرط ہے،جیسے گندم کی گندم، سونے کی سونے کے عوض بیع اور کرنسی کی خرید وفروخت ہے، یا وقوعِ بیع کے وقت مکمل قیمت کی اَدائیگی ضروری ہے جیسا کہ بیع سلم میں ہے، وہاں بھی خیارِ شرط کی گنجائش نہیں ہے ۔چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’أن البیوع التی یشترط فیہا التقابض في المجلس کالصرف وبیع الطعام بالطعام أو القبض في أحد العوضین کالسلم لایجوز شرط الخیار فیہا‘‘ (روضۃ الطالبین :۱/۴۳۹) ’’بیع کی وہ صورتیں جن میں دونوں طرف سے موقع پر قبضہ شرط ہے، جیسے کرنسی کی خرید و فروخت، یاغلے کی غلے کے عوض بیع ہے۔یا مکمل قیمت کی پیشگی ادائیگی ضروری ہے، جیساکہ بیع سلم میں ہے تواِن میں خیار شرط جائز نہیں ۔‘‘
Flag Counter