بازی میں غور و فکرکے بغیر ہی ہوجاتی ہے، لہٰذا یہ شریعت ِکاملہ کی خوبیوں میں سے ہے کہ اس نے ایک حد (جب تک دونوں فریق بیع کی جگہ موجود ہیں ) مقرر کر دی ہے جس میں دونوں فریق اپنے فیصلے پر غور و فکر اور نظر ثانی کر لیں ۔‘‘ (اعلام الموقعین:۳/ ۱۶۴) لیکن اگر مشتری جدا ہونے سے قبل خریدی گئی چیز میں تصرف کر لے مثلاً کسی کو ہبہ کر دے اور فروخت کنندہ اس پر اعتراض نہ کرے تو خیارِ مجلس ختم اوربیع لازم ہوجاتی ہے۔ بعض اہلِ علم کے نزدیک اگردونوں یاایک بیع کرتے وقت یہ واضح کر دے کہ بیع فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہوگاتو پھر بھی دونوں یا جس نے یہ حق ختم کیا، اس کا اختیار ساقط ہو جائے گا اور بیع لازم ہو جائے گی۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ((إذا تبایع الرجلان فکل واحد منہما بالخیار ما لم یتفرَّقا وکانا جمیعًا أو یُخیِّر أحدہما الآخر)) (صحیح بخاری:۲۱۱۲) ’’جب دو شخص بیع کریں تو ہر ایک کو اس وقت تک اختیار ہے جب تک وہ جدا نہ ہوں یعنی اکٹھے ہوں یا ایک دوسرے کو اختیار نہ دے دیں ۔‘‘ یہ حضرات ایک دوسرے کو اختیار دینے کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ جب فریقین یا ان سے ایک لین دین کرتے وقت یہ شرط لگا لے کہ خیارِ مجلس نہیں ہو گا تو یہ اختیار ختم ہو جاتا ہے، لیکن یہ بات صحیح نہیں ،کیونکہ یہ خیارکی حکمت وفلسفہ کے خلاف ہے۔ہماری رائے میں اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ جب تک فریقین بیع کی جگہ پر موجود ہوں ، ان کے درمیان بیع لازم نہیں ہوتی سوائے اس بیع کے جس میں وہ ایک دوسرے کو جدا ہونے کے بعد بھی طے شدہ مدت تک بیع فسخ قرار دینے کا اختیار دے دیں ،یعنی اس صورت میں جدا ئی سے قبل ہی بیع لازم ہو جاتی ہے البتہ طے شدہ مدت تک بیع منسوخ کرنے کا اختیار باقی رہتا ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں ہے : ((کل بیعین لا بیع بینہما حتی یتفرقا إلا بیع الخیار))(رقم الحدیث:۲۱۱۳) ’’خرید وفروخت کرنے والوں کے درمیان بیع (لازم) نہیں ہو گی یہاں تک وہ جدا ہوں جائیں سوائے اس بیع کے جس میں وہ ایک دوسرے کو اختیار دے دیں ۔‘‘ ii)خیارِ شرط:جب فروخت کنندہ یامشتری خریداری کا معاملہ کرتے وقت یہ کہے کہ |