Maktaba Wahhabi

77 - 79
سے شائع ہوکر ساری دنیا میں پھیل جاتے ہیں ۔ ان رسائل میں اکثر اوقات ایک خاص نقطۂ نظر پیش کیا جاتاہے جو مغربی دنیا کے مفادات کے عین مطابق ہوتاہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ عالمی شہرت کے رسالے ٹائم، اکانومسٹ اورنیوزویک پر یہودی لابی غالب ہے۔ یہ رسالے ہر ہفتے بین الاقوامی سیاست پرتبصرے کرتے اورتجزیے شائع کرتے ہیں جنہیں ہم من و عن مقدس تحریر سمجھ کر یوں قبول کرلیتے ہیں کہ ان کے سیاق و سباق پر غور ہی نہیں کرتے۔ پھر ہرمحفل میں ان تبصروں کو ٹائم اور نیوز ویک کے حوالے سے حرفِ آخر سمجھ کرقبول کرلیتے ہیں ۔ ہم نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارانہیں کی کہ عراق ہو، ایران ہو، بوسنیا ہو یا کشمیر۔ یہ رسائل اپنے تجزیوں میں ڈنڈی ضرور ماریں گے اور کسی نہ کسی طرح اسلام اور مسلمان سے اس طرح چٹکی ضرور لیں گے کہ قاری کو محسوس بھی نہ ہو اور الفاظ اپنا کام کرجائیں ۔ عراق، کویت جنگ اور انقلابِ ایران کے دوران ان رسائل نے اپنا بھرپور کردار ادا کیااور عالمی رائے عامہ کو اپنی ضروریات کے سانچے میں ڈھالا۔ صرف میڈیا ہی کاکمال ہے کہ کوئی بھی اسلامی ملک اپنے موقف میں کتناہی حق بجانب کیوں نہ ہو، عالمی سطح پر معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے پرمجبور ہوجاتاہے اور وہ سربراہانِ حکومت جو مغربی مفادات کے خلاف کام کرتے ہیں ، اُنہیں تمسخر کانشانہ بنا دیاجاتاہے۔غور کیجئے تو محسوس ہوتا کہ یہ ایک طرح سے ہماری غلامانہ ذہنیت کی علامت ہے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوا ہے کہ جب کسی ناقابل قبول حکمران کو بدلنا مقصود ہوتا ہے تو میڈیا سے ہراول دستے کا کام لیا جاتا ہے، وہ اس طرح کہ مغربی میڈیا بڑی طاقتوں کی خفیہ ایجنسیوں کی ملی بھگت سے ایسے حکمرانوں کی ذاتی زندگی اور قومی کردار کے بارے میں من گھڑت کہانیاں شائع کرتاہے اور آزادیٔ اظہار کے نام پر ان شخصیات کی اس طرح کردار کشی کی جاتی ہے کہ نہ صرف عالمی سطح پر ان کا امیج خراب ہوتا ہے بلکہ خود ان ممالک کے عوام بھی اپنے حکمرانوں سے نفرت کرنے لگتے ہیں ۔ آپ نے اکثر مشاہدہ کیا ہوگا کہ بڑی طاقتوں کے ذریعے ’ناپسندیدہ حکمرانوں ‘ کے بارے میں عجیب و غریب خفیہ داستانیں پھیلائی جاتی ہیں جبکہ اپنے حواری اور پسندیدہ حکمرانوں کی ایسی حرکات چھپائی جاتی ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں
Flag Counter