Maktaba Wahhabi

76 - 79
پائے جاتے ہیں ،کیونکہ وہاں عمارات کی تعمیر میں لکڑی بہت زیادہ استعمال ہوتی ہے، اس لیے سال بھر ان جنگلوں کی کٹائی کا عمل جاری رہتا ہے۔ خبر یہ تھی کہ کٹائی کے دوران ماہرین جنگلات کو اچانک یہ پتہ چلا کہ اس جنگل میں ایک اُلّو صاحب نے مستقل اپنا گھر بنارکھا ہے اور جب سے درختوں کی کٹائی کا سلسلہ شروع ہوا ہے ۔ اُلّو صاحب اداس رہنے لگے ہیں ۔اُلّو کی اداسی کی خبر سے اس علاقے میں احتجاج ہوا اور کیلیفورنیا کی حکومت نے جنگل کی کٹائی روک دی جس سے لکڑی کی قیمت میں اضافہ ہوگیا اور گھروں کی تعمیر قدرے مہنگی ہوگئی۔ میں نے یہ خبر اور اس پرتبصرہ ٹیلی ویژن پر سنا اور گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ اگلے دن سیمینار کے دوران چائے کاوقفہ ہوا تو میں نے ممتاز امریکی پروفیسر صاحبان سے اس خبر کا تذکرہ کیا۔ وہ پہلے ہی اس سے آگاہ تھے، لیکن میرے ذکر کرنے پران کے چہرے خوشی سے گلاب کی مانند کھل گئے۔ اس صورت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے میں نے یہ سوال داغ دیا کہ ’’آپ نے ایک پرندے کی اُداسی کی خاطر جنگل کی کٹائی روک کر لکڑی کی قیمت میں اضافہ برداشت کرلیا، لیکن کچھ عرصہ قبل جب عراق کے معصوم شہریوں پر بموں کی بارش کی جارہی تھی تو آپ کیوں خاموش رہے؟ کیا آپ کو ایک جانور کسی مسلمان کی زندگی سے زیادہ عزیز ہے؟ میرے اس سوال سے ان کے چہرے کے رنگ اُڑ گئے۔ اس واقعے سے آپ امریکہ کی انسانی حقوق سے کمٹمنٹ کااندازہ لگا سکتے ہیں ۔ بات یہاں سے چلی تھی کہ آج کا دور میڈیا کا دور ہے۔میڈیا بدقسمتی سے یہودیوں کے قبضے میں ہے اور یہودیوں کانشانہ بہرحال اسلام اور مسلمان ہیں ۔ اب جب کہ مغربی ممالک غیر ترقی یافتہ ممالک سے بوریا بستر لپیٹ کررخصت ہوچکے ہیں تو اُنہوں نے ان ممالک پر حکمرانی کا ایک نیا طریقہ وضع کیا ہے اور وہ طریقہ ہے: میڈیا کے زور پر ذہنوں پر حکومت کرنا۔ نصف صدی قبل جسمانی غلامی بھی ہمارا مقدر تھی اور اب ذہنی غلامی ہماری قسمت کا حصہ ہے۔ سوچئے تو سہی کہ اس کی وجوہات کیا ہیں ؟ اسی پس منظر میں مغربی میڈیا جب چاہتا ہے کوئی نئی اصطلاح اور کوئی نیا شوشہ چھوڑ دیتا ہے۔ دنیا کے بہترین رسائل جن میں ادبی، تحقیقی اور سیاسی پرچے شامل ہیں ، مغربی ممالک
Flag Counter