جب ان استعماری قوتوں کو آزادی کی تحریکوں کے سامنے ہتھیار ڈال کر غلام ممالک سے رخصت ہوناپڑا تو اس کے ساتھ ہی اُنہیں جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کاخیال آیا۔ چنانچہ انسانی حقوق کے دفاع کے لیے عالمی سطح پر انجمنیں بنائی گئیں ۔ کل تک انسانوں کو حیوانوں سے کم تر سمجھنے والے چند ہی برسوں میں انسانی حقوق کے ٹھیکے دار بن گئے۔ گویا پرانا شکاری نیا جال لے کر آیا۔یہ درست کہ اس وقت بعض ممالک میں یہ انجمنیں مفیدکام بھی کررہی ہیں ، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جن ممالک میں اولادِ آدم کو مغربی اقوام کی ملی بھگت سے کچلاجارہا ہے وہاں بھی انسانی حقوق کی انجمنیں موجود ہیں جو بے کار اور غیر مؤثر ہیں ۔ گذشتہ چند برسوں سے اولادِ آدم کے انسانی حقوق کی حفاظت کی اجارہ داری امریکہ بہادر کے پاس ہے۔ ادھرمغربی میڈیا نے انسانی حقوق کو ایک آئیڈیالوجی بلکہ مذہب کادرجہ دے دیا ہے، اس سے امریکہ کو یہ استحقاق حاصل ہوگیا ہے کہ جہاں انسانی حقوق پر زد پڑتی ہو وہ کسی بھی ایسے ملک کے اندرونی معاملات میں دخل دے سکتاہے۔ بلکہ اسے دہشت گرد قراردے کر سزا کا حق دار ٹھہرا سکتاہے، کس ملک میں انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں ؟ اس کافیصلہ بھی امریکہ ہی کرے گا۔ چنانچہ امریکہ عراق پربمباری کرکے سینکڑوں معصوم شہریوں کو موت کی نیند سلا دے تو وہ انسانی حقوق کے حوالے سے درست اقدام قرار دیا جاتا ہے، لیکن بوسنیا میں ہزاروں معصوم مسلمان سربیائی ظلم کی بھینٹ چڑھ جائیں تو امریکہ کے ضمیرمیں خلش تک نہیں ہوتی ،کیونکہ بوسنیا مسلمان ملک ہے۔ اس طرح پاکستان اگر کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی اخلاقی امداد کرے تو وہ سزا کامستحق ہے، لیکن بھارت اگر ہزاروں مسلمانوں کو گولی کا نشانہ بنادے تو اس سے چشم پوشی برتی جائے گی۔ انسانی حقوق کے حوالے سے مجھے ایک دلچسپ واقعہ یادآیا ، ایک صاحب بیان کرتے ہیں کہ کسی بین الاقوامی سیمینار کے ضمن میں مجھے امریکی ساحلی شہر سان فرانسسکو جانے کا موقع ملا۔ اس سیمینارمیں ایشیائی ممالک کے سکالرز کے علاوہ مختلف امریکی یونیورسٹیوں سے بھی ممتاز پروفیسرز صاحبان بلائے گئے تھے۔ سیمینار کے آغاز سے ایک روز قبل میں نے ٹیلی ویژن آن کیا تو ایک دلچسپ خبر مع تبصرہ سننے کو ملی۔کیلیفورنیا کی ریاست میں جنگلات کے وسیع ذخیرے |