Maktaba Wahhabi

71 - 79
حکومت کے قیام کے بعد پارلیمنٹ نے طے کیا کہ پاکستانی فوج اپنے ہم وطنوں سے نہیں لڑے گی اور معاملات بات چیت سے طے کیے جائیں گے۔ بالآخر یہ حکمت ِعملی سوات امن معاہدے اور اس کے تحت نظامِ عدل کے نفاذ کی شکل میں کامیابی کی منزل تک پہنچی اور یہ اِمکان روشن ہوگیا کہ خانہ جنگی میں اُلجھا کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازش اب اپنی موت آپ مرجائے گی۔لیکن پاکستانی طالبان نے معاہدے کے مطابق مسلح سرگرمیاں ختم کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کرکے اور تحریک ِ نفاذِ شریعت محمدی کے سربراہ صوفی محمد نے پاکستان کے آئین اور جمہوری نظام سب کو کافرانہ قرار دے کر اس سازش کو نئی زندگی بخش دی۔ چنانچہ آج امریکا کے خلاف مزاحمت کرنے والی قوتوں اور پاک فوج کے درمیان بھرپور جنگ کی شکل میں وہی کچھ ہورہا ہے جو امریکا چاہتا تھا۔ امریکا کی اس جنگ کو آج سب ہی ’پاکستان کی جنگ‘ کہہ رہے ہیں جبکہ اس میں دونوں طرف سے نقصان صرف پاکستان کا ہورہا ہے ۔ فوجیوں اور جنگجووں کی ہزاروں کی تعداد میں ہلاکت کے علاوہ، لاکھوں تباہ حال شہری گھربار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔ اور یہ ملک عراق اور افغانستان کی طرح عدمِ استحکام کی راہ پر چل پڑا ہے۔ اس صورتِ حال کے نتیجے میں قابض بیرونی افواج کے خلاف افغان مزاحمت بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ صوفی محمد اور طالبان قیادت اگر سوات امن معاہدے کے بعد محتاط رویہ اپناتے تو استعماری ایجنڈے کی تکمیل کی راہ یوں ہموار نہ ہوتی۔ اس لیے شاید یہ کہنا غلط نہیں کہ پاکستانی طالبان میں گھسے ایجنٹوں نے امریکا کا کام آسان کردیا ہے !! [ روزنامہ ’جنگ‘:۲۰/مئی ۲۰۰۹ء] مدیر ’محدث‘ کا مختصر تبصرہ ٭ اس مضمون کے مصنف معروف ہفت روزہ تکبیر کے مدیر شہیر جناب صلاح الدین کے دست ِراست مشہور صحافی ہیں جو اُن کی شہادت کے بعد کافی عرصہ تکبیر کو شائع کرتے رہے ہیں ۔ ان کا زیر نظر تجزیہ اور مشاہدہ خصوصیت سے قابل توجہ ہے، البتہ ان کا یہ سوال کہ ’’القاعدہ اور امریکہ؛ کون کسے استعمال کررہا ہے؟‘‘ … اس کا جواب بعد کے واقعات سے بخوبی مل جاتا ہے۔اگر تو امریکہ پاکستان میں جاری جنگ میں خود شریک ہوجاتا تو اس کی ہلاکت
Flag Counter