اس کے علاوہ پروفیسر اسٹیون جونز ، پروفیسر ڈیوڈ رے گریفن اور سابق امریکی نائب وزیر خزانہ پال کریگ رابرٹس سمیت کئی مغربی محققین نے دلائل اور ثبوت و شواہد سے اس حقیقت کو پوری طرح بے نقاب کردیا ہے کہ افغانستان پر فوج کشی کے لیے نائن الیون واقعات، بش انتظامیہ اور امریکی ایجنسیوں کا خود ساختہ خونی ڈراما تھے تاکہ افغانستان پر حملے اور قبضے کے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے لیے جواز مہیا کیا جاسکے۔ بڑی کھینچ تان کے باوجود نائن الیون کو عراق پر حملے کا جواز نہیں بنایا جاسکا تو اس کے لیے مہلک ہتھیاروں کا بہانہ تراشا گیا جس کے سو فی صد جھوٹ ہونے کا خود امریکی حکمران بھی اعتراف کرچکے ہیں ۔ تاہم افغانستان پر اس بہانے چڑھائی کرڈالی گئی تاکہ اس وقت کی افغان حکومت کو ہٹایا جاسکے جو افغانستان کے راستے وسطی ایشیائی ریاستوں کے تیل اور گیس کے وسیع ذخائر سے کھربوں ڈالر کمانے کے لیے ترکمانستان سے پاکستان تک پائپ لائن ڈالنے کا ٹھیکہ امریکی کمپنی کو دینے کے لیے تیار نہیں تھی۔ افغانستان پر تسلط کے ذریعے چین کی نگرانی بھی مقصود تھی جس کی حیرت انگیز اقتصادی ترقی اور تیزی سے بڑھتی فوجی طاقت نے مغرب کو سخت تشویش میں مبتلا کررکھا ہے۔ اس خطے پر اپنے اثرات مستحکم کرکے اکیسویں صدی کو امریکا کے عالمی غلبے کی صدی بنانے کا خواب بھی دیکھا گیا تھا۔ یہ منصوبہ’ پروجیکٹ فار دی نیو امریکن سنچری‘ نامی تھنک ٹینک نے بش ٹولے کے لیے اس کے اقتدار میں آنے سے چند سال پہلے تیار کیا تھا،اور افغانستان پر فوج کشی اس کے عین مطابق تھی مگر طالبان کی جس مزاحمت کے چند روز میں خاتمے کی اُمیدیں لگائی گئی تھیں ، ساڑھے سات سال میں بھی وہ ختم نہیں ہوئی۔ افغان طالبان کی حمایت میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی تحریک اٹھی جس نے افغانستان میں قابض افواج کے لیے سخت مشکل صورت حال پیدا کردی۔پاکستان پر دباؤ پڑنا شروع ہوا کہ وہ اپنی سرزمین پر ایسی کوئی سرگرمی نہ ہونے دے جو افغانستان میں قابض مغربی فوجوں کے لیے مشکل کا سبب بن سکتی ہو۔ غیر مقبول فوجی آمرجنرل مشرف سے اس دباؤ کا مقابلہ نہیں کرسکے اور اُنہوں نے آخرکار فاٹا میں فوجی آپریشن شروع کردیا۔ تاہم جمہوری |