کے اعلان سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ امریکی افواج کو زیادہ سے زیادہ بڑی تعداد میں خطے میں مصروف رکھ کر امریکی معیشت کو بالکل ہی زمیں بوس کردینے کی حکمت ِ عملی پر کاربند ہے۔ اس حکمت ِعملی کا ایک ثبوت چند روز پہلے امریکا میں اندھا دھند فائرنگ کے ایک واقعے کی ذمہ داری بیت اللہ محسود کی جانب سے قبول کیے جانے کی شکل میں بھی سامنے آچکا ہے مگر محسود کے اس دعوے کو ماننے سے خود امریکی حکومت نے انکار کردیا۔اس واقعاتی صورت حال سے گمان ہوتا ہے کہ اگر امریکا القاعدہ کی قیادت کی تلاش کے بہانے پاک افغان خطے میں اپنے ہاتھ پاؤں پھیلا رہا ہے توالقاعدہ کی قیادت بھی اسے اُلجھائے رکھنے کے لیے کوشاں ہے، کیونکہ وہ اپنے خیال میں اس طرح امریکا کی مکمل بربادی کا سامان کررہی ہے۔ گویا القاعدہ اور امریکا دونوں ایک دوسرے کو اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں ، آخری کامیابی کسے حاصل ہوتی ہے، یہ وقت بتائے گا۔ [روزنامہ جنگ:۲۲/اپریل ۲۰۰۹ء] پاکستانی طالبان نے امریکہ کا کام آسان کردیا ! جنوبی اور وسطی ایشیا کی اسٹرٹیجک اہمیت اور اس کے بیش بہا قدرتی وسائل کی بنا پر اس علاقے پر تسلط کے لیے مغرب کی استعماری قوتیں امریکا کی قیادت میں ساڑھے سات سال پہلے افغانستان پر حملہ آور ہوئیں ۔ یہ ایک سوچی سمجھی کارروائی تھی جس کے لیے نائن الیون واقعات کا بہانہ تخلیق کیا گیا، جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں ۔ چنانچہ برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیر نے برطانوی دارلعوام کی لائیزن کمیٹی کے ارکان سے بات چیت کرتے ہوئے خود کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ جو کچھ گیارہ ستمبر کو ہوا، ہمارے پاس افغانستان کے خلاف اچانک کارروائی شروع کرنے کے لیے رائے عامہ کی رضامندی حاصل کرنے کا اس کے سوا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ جبکہ اٹلی کے سابق صدر فرانسسکو کوسیگا نے۳۰ نومبر ۲۰۰۷ء کواپنے ملک کے سب سے معتبر، قدیم اور کثیر الاشاعت اخبار ’کوریئر ڈیلا سیرا‘ کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ امریکا اور یورپ کی تمام خفیہ ایجنسیاں اچھی طرح جانتی ہیں کہ اس ہولناک کارروائی کی منصوبہ بندی امریکی سی آئی اے اور اسرائیلی موساد نے صہیونی دنیا کے تعاون سے کی تھی تاکہ عرب ملکوں پر الزام عائد کرکے مغربی طاقتوں کے لیے مسلم ملکوں کے وسائل سے استفادے کی راہ ہموار کی جاسکے۔ |