5. امریکی انتظامیہ کو تحقیقات کے لیے جہازوں کے فولادی ڈھانچوں میں سے تو کچھ نہیں ملا اور کہہ دیا گیا کہ بے پناہ حرارت کے سبب وہ بخارات بن کر اُڑگئے، لیکن ڈی این اے ٹسٹ کے لیے مسافروں کے گوشت کے لوتھڑے مل گئے، یہ عجوبہ آخر کیسے رونما ہوا؟ 6. ریکارڈ پر موجود حقائق کے مطابق افغانستان پر فضائی حملوں کے ذریعے طالبان حکومت کے خاتمے کا منصوبہ نائن الیون سے کئی مہینے پہلے بنایا جاچکا تھا۔ امریکا کی جانب سے کئی پڑوسی ملکوں کو اس کی اطلاع بھی کی جاچکی تھی۔ اس کارروائی کے لیے وسط اکتوبر کا تعین بھی کرلیا گیا تھا۔ آخر نائن الیون حادثہ کے وقوع سے پہلے ہی یہ ساری تیاری کیوں تھی؟ 7. ایک مشتبہ کیسٹ کے سوا جسے ماہرین جعلی قرار دے چکے ہیں ،نائن الیون حملوں میں بن لادن کی شمولیت کا کوئی ثبوت اب تک کیوں پیش نہیں کیا جاسکا ہے؟ 8. امریکا کیسپین کے تیل کے ذخائر تک پہنچنے کے لیے طالبان حکمرانوں سے تیل اور گیس کی پائپ لانے بچھانے کی اجازت چاہتا تھا مگر وہ اس کے لیے ارجنٹائن کی ایک فرم سے معاہدے پر کام کررہے تھے۔ چنانچہ اُنہیں نائن الیون سے کئی ہفتے پہلے سونے یا بموں کی بارش میں سے کسی ایک کو قبول کرنے کی پیشکش کی گئی اور امریکی مطالبہ نہ ماننے کی پاداش میں آخرکار ان پر بموں کی بارش کردی گئی۔ واقعاتی حقائق پر مبنی یہ سوالات بنیادی طور پر امریکا کی بریگھم ینگ یونیورسٹی کے سابق استاد پروفیسر اسٹیون جونز اور سابق نائب وزیر خزانہ پال کریگ رابرٹس کے تحقیقی کام، پروفیسر ڈیوڈ رے گریفن کی کتاب ’ڈی بنکنگ نائن الیون ڈی بنکنگ‘، فرانسیسی محققوں جین چارلس بریسارڈ اور گیلوم ڈاسکی کی کتاب’ دی فاربیڈن ٹرتھ‘،بی بی سی، گارڈین اور دیگر عالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں اور جاپانی پارلیمنٹ کی دفاع اور اُمور خارجہ کمیٹی کو اس کے ایک رکن یوکی ہی سا فوتیجا کی جانب سے دی گئی بریفنگ سے ماخوذ ہیں ۔ ان کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ افغانستان پر فوج کشی اور قبضے کے طے شدہ منصوبے کی تکمیل کے لیے نائن الیون کا ڈرامہ خود امریکا کے طاقتور حلقوں نے رچایا تھا۔ ان حقائق کی موجودگی میں القاعدہ کی قیادت کی جانب سے نائن الیون کی ذمہ داری قبول کرنے |