مصاحف پر حرکات اور نقطے لگانے کی اجازت کے قائل رہے ہیں ۔ وہ کسی سورت کے آغاز کی علامت، آیات کی تعداد، پانچ آیات کے بعد ’خمس‘ اور دس آیات کے بعد ’عشر ‘کی علامت لگانے میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھتے ۔ اور ان تمام لوگوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ ان علامات کے سلسلہ میں اگر کوئی غلطی ہوجائے تو اس کا اِزالہ ضروری ہے۔‘‘ میرا ذاتی نقطہ نظر یہ ہے کہ اس دور میں قرآنِ کریم پر نقطے اور حرکات لگانا واجب ہے تاکہ تمام لوگوں کے لئے قرآنِ کریم کی تلاوت آسان ہوسکے ۔نیز اس کے ذریعہ قرآن کریم لحن اور تحریف سے بھی محفوظ ہوجائے گا۔ سورتوں کے نام لکھنے کا جواز ہر سورت کے شروع میں سورت کا نام، اس کی آیات کی تعداد اور اس سورت کے مکی یا مدنی ہونے کی وضاحت کرنا جائز ہے، لیکن اس کے ساتھ مستثنیات کا تذکرہ بھی کیا جائے گا، کیونکہ اس سلسلہ میں علما کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ اسی طرح مصحف پر جز، حزب، ربع، سجدہ اور وقف کی علامات، آیات کی نمبرنگ، سورت کے آغاز و اختتام کی علامات لگانا جائز ہے، لیکن سلف کی ایک جماعت نے ان تمام علامات کو ناپسند کیا ہے۔ ان کی دلیل عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول ہے : جرِّدوا القرآن ولا تلحقوا بہ ما لیس منہ (البرہان فی علوم القرآن: ۱/۴۷۹) ’’قرآن کو ہر چیز سے خالی کردو اور اس میں کوئی ایسی چیز شامل نہ کرو جو اس کا حصہ نہیں ہے۔‘‘ میری رائے یہ ہے کہ اس قسم کی تمام علامات میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جمہور متقدمین ومتاخرینِ اسلاف کا رجحان بھی اسی موقف کی طرف ہے، جیسا کہ امام دانی رحمہ اللہ کے حوالے سے اس کی وضاحت گزر چکی ہے۔ قرآنِ کریم کو سونے، چاندی سے لکھنے کا جواز امام غزالی رحمہ اللہ نے سونے کے ساتھ قرآنِ کریم کی کتابت کو مستحسن قرار دیا ہے۔ لیکن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ، ابوذر رضی اللہ عنہ اور ابودرداء رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ اُنہوں نے اس کو ناپسند کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: |