تلوار سونت کرآئے اور منافق کو قتل کردیا اور کہا: جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر راضی نہیں ہوتا، اس کے لئے میں اسی طرح فیصلہ کرتا ہوں۔ پھر اللہ نے یہ آیت نازل کردی۔ ﴿فَلاَ وَرَبِّکَ لاَیُؤْمِنُونَ حَتَّی یُحَکِّمُوک﴾ اسی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا لقب ’فاروق‘ پڑ گیا۔ ‘‘ یہی واقعہ ایک اور حدیث میں یوں بھی بیان ہوا ہے کہ عن أبي الأسود قَالَ: اِخْتَصَمَ رَجُلاَنِ إِلَی رَسُولِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَضَی بَیْنَہُمَا فَقَالَ الَّذِی قُضِيَ عَلَیْہِ رُدَّنَا إِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَأَتَیَا إِلَیْہِ فَقَالَ الرَّجُلُ: قَضَی لِی رَسُولُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَی ہَذَا،فَقَالَ رُدِّنَا إِلَی عُمَرَ فَقَالَ:أَکَذَلِکَ؟قَالَ نَعَمْ۔فَقَالَ عُمَرُ: مَکَانَکُمَا حَتَّی أَخْرُجَ إِلَیْکُمَا فَأَقْضِی بَیْنَکُمَا فَخَرَجَ إِلَیْہِمَا مُشْتَمِلًا عَلَی سَیْفِہِ فَضَرَبَ الَّذِي قَالَ: رُدِّنَا إِلَی عُمَرَ،فَقَتَلَہُ فَأَنْزَلَ اﷲُ ﴿فَلاَ وَ رَبِّکَ لاَیُؤْمِنُونَ حَتَّی یُحَکِّمُوکَ۔۔۔﴾ (لباب النقول ۱/۹۰؛ درمنثور۲/۱۸۰) ’’حضرت ابو اسود بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جھگڑا لے کر آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان فیصلہ فرما دیا۔ جس کے خلاف فیصلہ ہوا تھا، اس نے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس چلتے ہیں ۔ جب وہ دونوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو دوسرے آدمی (جس کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا تھا) نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کے خلاف میرے حق میں فیصلہ فرما دیا ہے، لیکن اس نے کہا: عمر رضی اللہ عنہ کے پاس چلئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا: کیا ایسے ہی ہے؟ اس نے جواب دیا: ہاں ! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم دونوں یہیں ٹھہرو، میں ابھی آکر تمہارا فیصلہ کرتا ہوں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تلوار سونت کر آئے اور جس نے کہا تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس چلو، اسے قتل کردیا۔ اللہ نے یہ آیت نازل فرما دی: ﴿فَلاَ وَ رَبِّکَ لاَیُؤْمِنُونَ حَتَّی یُحَکِّمُوکَ۔۔۔﴾ ’’تیرے ربّ کی قسم! یہ اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے، جب تک تجھے اپنے جھگڑوں میں قاضی تسلیم نہ کرلیں ۔‘‘ (النساء ۴: ۶۵) ٭ ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیرمیں (۳/۹۹۴) اور دیگر اہل علم نے اس حدیث کو ابن لہیعہ کے طریق سے روایت کیا ہے لیکن یہ طریق ضعیف ہے۔ البتہ ابو مغیرہ اور شعیب بن شعیب کے طرق سے بھی یہ روایت مروی ہے۔ لہٰذا حافظ ابن کثیر نے ان شواہد کی بنا پر اس روایت کو قوی شمار کیا ہے۔ (مسند الفاروق: ۲/۸۷۶، بحوالہ أقضیۃ الخلفاء الراشدین: ۲/ ۱۱۸۸) |