استاذ اسفرائینی رحمہ اللہ اور ابن فورک رحمہ اللہ ہیں ۔‘‘ ٭ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ بھی، امام نووی رحمہ اللہ کے اس موقف سے مطمئن نہیں ہیں اور لکھتے ہیں کہ بات وہی صحیح ہے جو حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ نے لکھی ہے۔امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ثم حکی أن الأمۃ تلقت ھٰذین الکتابین بالقبول،سوٰی أحرف یسیرۃ انتقدھا بعض الحفاظ کالدارقطني وغیرہ،ثم استنبط من ذلک القطع بصحۃ ما فیھما من الأحادیث، لأن الأمۃ معصومۃ عن الخطإ،فما طنت صحتہ ووجب علیھا العمل بہ،لا بد وأن یکون صحیحًا في نفس الأمر،وھذا جید۔وقد خالف في ھذہ المسئلۃ الشیخ محي الدین النووي وقال: لا یستفاد قطع بالصحۃ من ذلک۔ قلت: وأنا مع ابن الصلاح فیما عول علیہ وأرشد إلیہ۔واﷲ أعلم۔ (اختصار علوم الحدیث، ص۴۴،۴۵) ’’پھر ابن صلاح رحمہ اللہ نے ان دونوں کتابوں کے لیے امت کے ہاں ’تلقی بالقبول‘ کا تذکرہ کیا ہے سوا چند روایات کے۔پھر ابن صلاح رحمہ اللہ نے اس’تلقی بالقبول‘ سے صحیحین کی احادیث کی صحت کی قطعیت پر استدلال کیاکیونکہ اُمت خطا سے معصوم ہے۔ پس جس حدیث کو اُمت نے صحیح سمجھا اوراس پر عمل واجب ہو گیاتو ضروری ہے کہ وہ روایت حقیقت میں بھی صحیح ہو،اور امام ابن صلاح رحمہ اللہ کا یہ کلام عمدہ ہے۔اور اس مسئلے میں امام نووی رحمہ اللہ نے مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے قطعی صحت کا علم حاصل نہیں ہوتا ۔میں (یعنی ابن کثیر رحمہ اللہ ) یہ کہتا ہوں کہ میرا اس مسئلے میں وہی موقف ہے جو امام ابن صلاح رحمہ اللہ نے بیان کیاہے ۔‘‘ ٭ امام سیوطی رحمہ اللہ بھی امام نووی رحمہ اللہ کی تنقید سے متفق نہیں ہیں ،اُنہوں نے بھی اسی موقف کو صحیح قرار دیا ہے جو امام ابن صلاح رحمہ اللہ اور امام ابن کثیر رحمہ اللہ کا ہے۔لہٰذا لکھتے ہیں : وقال ابن کثیر: وأنا مع ابن صلاح فیما عول علیہ وأرشد إلیہ، قلت: وھو الذي أختارہ ولا أعتقد سواہ (تدریب الراوی :ج۱/ص۱۰۶) ’’اور علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ میں اس مسئلے میں ابن صلاح رحمہ اللہ کے موقف پر ہوں اور میں (سیوطی رحمہ اللہ ) یہ کہتا ہوں کہ میں بھی اسی(ابن کثیر رحمہ اللہ کی) رائے کو پسند کرتا ہوں اور اس کے علاوہ کسی |